کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 7 رکوع 15 سورہ الانفال آیت نمبر71 تا 82
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ۪-لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَاؕ-قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ-وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۷۱)
تم فرماؤ (ف۱۵۲) کیا ہم اللہ کے سوا اس کو پوجیں جو ہمارا نہ بھلاکرے نہ برا (ف۱۵۳) اور الٹے پاؤں پلٹا دئیے جائیں بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں راہ دکھائی (ف۱۵۴) اس کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں راہ بھلادی (ف۱۵۵) حیران ہے اس کے رفیق اسے راہ کی طرف بلارہے ہیں کہ ادھر آ تم فرماؤ کہ اللہ ہی کی ہدایت، ہدایت ہے (ف۱۵۶)اور ہمیں حکم ہے کہ ہم اس کے لیے گردن رکھ دیں (ف۱۵۷)جو رب ہے سارے جہان کا
(ف152)
اے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین سے جو اپنے باپ دادا کے دین کی دعوت دیتے ہیں ۔
(ف153)
اور اس میں کوئی قدرت نہیں ۔
(ف154)
اور اسلام اور توحید کی نعمت عطا فرمائی اور بُت پرستی کے بدترین وبال سے بچایا ۔
(ف155)
اس آیت میں حق و باطل کے دعوت دینے والوں کی ایک تمثیل بیان فرمائی گئی کہ جس طرح مسافر اپنے رفیقوں کے ساتھ تھا جنگل میں بُھوتوں اور شیطانوں نے اس کو رستہ بہکا دیا اور کہا منزلِ مقصود کی یہی راہ ہے اور اس کے رفیق اس کو راہِ راست کی طرف بلانے لگے وہ حیران رہ گیا کدھر جائے ، انجام اس کا یہی ہو گا کہ اگر وہ بُھوتوں کی راہ پر چل دے تو ہلاک ہو جائے گا اور رفیقوں کا کہا مانے تو سلامت رہے گا اور منزل پر پہنچ جائے گا ۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو طریقۂ اسلام سے بہکا اور شیطان کی راہ چلا ، مسلمان اس کو راہِ راست کی طرف بلاتے ہیں اگر ان کی بات مانے گا راہ پائے گا ورنہ ہلاک ہو جائے گا ۔
(ف156)
یعنی جو طریق اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کے لئے واضح فرمایا اور جو دین (اسلام) ان کے لئے مقرر کیا وہی ہدایت و نور ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ دین باطل ہے ۔
(ف157)
اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور خاص اسی کی عبادت کریں ۔
وَ اَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّقُوْهُؕ-وَ هُوَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۷۲)
اور یہ کہ نماز قائم رکھو اور اس سے ڈرو اور وہی ہے جس کی طرف تمہیں اٹھنا ہے
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ ﱟ قَوْلُهُ الْحَقُّؕ-وَ لَهُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِؕ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ(۷۳)
اور وہی ہے جس نے آسمان و زمین ٹھیک بنائے (ف۱۵۸) اورجس دن فنا ہوئی ہر چیز کو کہے گا ہوجا وہ فوراً ہوجائے گی ۔ اس کی بات سچ ہی ہے اور اسی کی سلطنت ہے جس دن صُور پھونکا جائے گا (ف۱۵۹) ہر چھپے اور ظاہر کا جاننے والا اور وہی ہے حکمت والاخبردار
(ف158)
جن سے اس کی قدرتِ کاملہ اور اس کا علم محیط اور اس کی حکمت و صنعت ظاہر ہے ۔
(ف159)
کہ نام کو بھی کوئی سلطنت کا دعوٰی کرنے والا نہ ہو گا ، تمام جبابرہ ، فراعنہ اور سب دنیا کی سلطنت کا غرور کرنے والے دیکھیں گے کہ دنیا میں جو وہ سلطنت کا دعوٰی رکھتے تھے وہ باطل تھا ۔
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴)
اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ (ف۱۶۰) آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بے شک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں(ف۱۶۱)
(ف160)
قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام ہے ۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی نے مسالک الحُنَفاء میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ، چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں ہے ” نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلہٰ اٰبَآ ئِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ۔ ” اس میں حضرت اسمٰعیل کو حضرت یعقوب کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اَب فرمایا چنانچہ ارشاد کیا ” رُدُّوْا عَلَیَّ اَبِیْ” اور یہاں اَبِی سے حضرت عباس مراد ہیں ۔ (مفرداتِ راغب وکبیر وغیرہ)
(ف161)
یہ آیت مشرکینِ عرب پر حُجَّت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو معظَّم جانتے تھے اور ان کی فضیلت کے معترف تھے ، انہیں دکھایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام بُت پرستی کو کتنا بڑا عیب اور گمراہی بتاتے ہیں اگر تم انہیں مانتے ہو تو بُت پرستی تم بھی چھوڑ دو ۔
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ(۷۵)
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی (ف۱۶۲) اور اس لیے کہ وہ عین الیقین والوںمیں ہوجائے(ف۱۶۳)
(ف162)
یعنی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دین میں بِینائی عطا فرمائی ایسے ہی انہیں آسمانوں اور زمین کے مُلک دکھاتے ہیں ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا اس سے آسمانوں اور زمین کی خَلق مراد ہے ۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ آیاتِ سمٰوات و ارض مراد ہیں ، یہ اس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو صَخرہ (پتھر) پر کھڑا کیا گیا اور آپ کے لئے سماوات مکشوف کئے گئے یہاں تک کہ آپ نے عرش و کرسی اور آسمانوں کے تمام عجائب اور جنّت میں اپنے مقام کو معائنہ فرمایا ، آپ کے لئے زمین کشف فرما دی گئی یہاں تک کہ آپ نے سب سے نیچے کی زمین تک نظر کی اور زمینوں کے تمام عجائب دیکھے ۔ مفسِّرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ رویت بچشمِ باطن تھی یا بچشمِ سر ۔ (درِّ منثور و خازن وغیرہ)
(ف163)
کیونکہ ہر ظاہر و مخفی چیز ان کے سامنے کر دی گئی اور خَلق کے اعمال میں سے کچھ بھی ان سے نہ چُھپا رہا ۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ(۷۶)
پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا (ف۱۶۴) بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے
(ف164)
عُلَماءِ تفسیر اور اصحابِ اَخبار و سِیَر کا بیان ہے کہ نَمرود ابنِ کنعان بڑا جابر بادشاہ تھا ، سب سے پہلے اسی نے تاج سر پر رکھا ، یہ بادشاہ لوگوں سے اپنی پرستِش کراتا تھا ، کاہِن اور مُنجِم کثرت سے اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے ۔ نمرود نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا ہے اس کی روشنی کے سامنے آفتاب ماہتاب بالکل بے نور ہو گئے اس سے وہ بہت خوف زدہ ہوا ، کاہنوں سے تعبیر دریافت کی ، انہوں نے کہا اس سال تیری قلمرو میں ایک فرزند پیدا ہو گا جو تیرے زَوالِ مُلک کا باعث ہو گا اور تیرے دین والے اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوں گے ، یہ خبر سن کر وہ پریشان ہوا اور اس نے حکم دے دیا کہ جو بچہ پیدا ہو قتل کر ڈالا جائے اور مرد عورتوں سے علیٰحدہ رہیں اور اس کی نگہبانی کے لئے ایک محکمہ قائم کر دیا گیا ۔ تقدیراتِ الٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حاملہ ہوئیں اور کاہنوں نے نمرود کو اس کی بھی خبر دی کہ وہ بچہ حمل میں آ گیا لیکن چونکہ حضرت کی والدہ صاحبہ کی عمر کم تھی ان کا حمل کسی طرح پہچانا ہی نہ گیا جب زمانۂ ولادت قریب ہوا تو آپ کی والدہ اس تہ خانے میں چلی گئیں جو آپ کے والد نے شہر سے دور کھود کر تیار کیا تھا ، وہاں آپ کی ولادت ہوئی اور وہیں آپ رہے ، پتھروں سے اس تہ خانہ کا دروازہ بند کر دیا جاتا تھا ، روزانہ والدہ صاحبہ دودھ پلا آتی تھیں اور جب وہاں پہنچتی تھیں تو دیکھتی تھیں کہ آپ اپنی سَرِ اَنگُشت چُوس رہے ہیں اور اس سے دودھ برآمد ہوتا ہے ، آپ بہت جلد بڑھتے تھے ، ایک مہینہ میں اتنا جتنے دوسرے بچے ایک سال میں ، اس میں اختلاف ہے کہ آپ تہ خانہ میں کتنے عرصہ رہے ۔ بعض کہتے ہیں سات برس ، بعض تیرہ برس ، بعض سترہ برس ، یہ مسئلہ یقینی ہے کہ انبیاء ہرحال میں معصوم ہوتے ہیں اور وہ اپنی ابتداءِ ہستی سے تمام اوقاتِ وجود میں عارف ہوتے ہیں ، ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی والدہ سے دریافت فرمایا میرا ربّ (پالنے والا) کون ہے ؟ انہوں نے کہا میں ، فرمایا تمہارا ربّ کون ہے ؟ انہوں نے کہا تمہارے والد ، فرمایا ان کا ربّ کون ہے ؟ اس پر والدہ نے کہا خاموش رہو اور اپنے شوہر سے جا کر کہا کہ جس لڑکے کی نسبت یہ مشہور ہے کہ وہ زمین والوں کا دین بدل دے گا وہ تمہارا فرزند ہی ہے اور یہ گفتگو بیان کی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتدا ہی سے توحید کی حمایت اور عقائدِ کُفریہ کا اِبطال شروع فرما دیا اور جب ایک سوراخ کی راہ سے شب کے وقت آپ نے زُہرہ یا مُشتری ستارہ کو دیکھا تو اِقامتِ حُجَّت شروع کر دی کیونکہ اس زمانہ کے لوگ بُت اور کواکب کی پرستش کرتے تھے تو آپ نے ایک نہایت نفیس اور دل نشیں پیرایہ میں انہیں نظر و استدلال کی طرف رہنمائی کی جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ عالَم بتمامہٖ حادِث ہے ، اِلٰہ نہیں ہو سکتا ، وہ خود مُوجِد و مُدَبِّر کا محتاج ہے جس کے قدرت و اختیار سے اس میں تغیُّر ہوتے رہتے ہیں ۔
فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ(۷۷)
پھر جب چاند چمکتا دیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا (ف۱۶۵)
(ف165)
اس میں قوم کو تنبیہ ہے کہ جو قمر کو اِلٰہ ٹھہرائے وہ گمراہ ہے کیونکہ اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا دلیلِ حدوث و اِمکان ہے ۔
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ(۷۸)
پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو (ف۱۶۶) یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو (ف۱۶۷)
(ف166)
شمس مؤنث غیر حقیقی ہے اس کے لئے مذکر و مؤنث کے دونوں صیغے استعمال کئے جا سکتے ہیں ، یہاں ہذا مذکر لایا گیا اس میں تعلیمِ ادب ہے کہ لفظِ ربّ کی رعایت کے لئے لفظِ تانیث نہ لایا گیا اسی لحاظ سے اللہ تعالٰی کی صفت میں عَلّام آتا ہے نہ کہ علامہ ۔
(ف167)
حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ثابت کر دیا کہ ستاروں میں چھوٹے سے بڑے تک کوئی بھی ربّ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، ان کا اِلٰہ ہونا باطل ہے اور قوم جس شرک میں مبتلا ہے آپ نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا اور اس کے بعد دینِ حق کا بیان فرمایا جو آگے آتا ہے ۔
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹)
میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے ایک اُسی کا ہوکر (ف۱۶۸) اور میں مشرکوں میں نہیں
(ف168)
یعنی اسلام کے سوا باقی تمام اَدیان سے جُدا رہ کر ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ دینِ حق کا قیام و استحکام جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ تمام اَدیانِ باطلہ سے بیزاری ہو ۔
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْــٴًـاؕ-وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ(۸۰)
اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی کہا کیا اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو وہ تو مجھے راہ بتاچکا (ف۱۶۹) اور مجھے ان کا ڈر نہیں جنہیں تم شریک بتاتے ہو (ف۱۷۰) ہاں جو میرا ہی رب کوئی بات چاہے (ف۱۷۱) میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے
(ف169)
اپنی توحید و معرفت کی ۔
(ف170)
کیونکہ وہ بے جان بُت ہیں نہ ضرر دے سکتے ہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں ، ان سے کیا ڈرنا ، یہ آپ نے مشرکین سے جواب میں فرمایا تھا جنہوں نے آپ سے کہا تھا کہ بُتوں سے ڈرو ان کے بُرا کہنے سے کہیں آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچ جائے ۔
(ف171)
وہ ہو گی کیونکہ میرا ربّ قادرِ مطلق ہے ۔
وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًاؕ-فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِۚ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۘ(۸۱)
اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں کر ڈروں (ف۱۷۲) اور تم نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کا شریک اس کو ٹھہرایا جس کی تم پر اس نے کوئی سند نہ اتاری تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزاوار کون ہے(ف۱۷۳) اگر تم جانتے ہو
(ف172)
جو بے جان جَماد اور عاجزِ مَحض ہیں ۔
(ف173)
مُوحِّد یا مشرک ۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲)
وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں