اقسا م خبر باعتبار نقل
اقسا م خبر با عتبار نقل
سلسلۂ سند کے اعتبار سے ہم تک پہونچنے والی احادیث کی دو قسمیں ہیں۔
متواتر غیر متواتر
تعریف:۔ جس حدیث کے راوی ہر طبقہ میں اتنے ہوں کہ ان کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال عقلی بھی ہو اور عادی بھی ، نیز مضمون حدیث حسیات سے متعلق ہو عقلی قیاسی نہ ہو۔ اسکو متواتراسنادی بھی کہتے ہیں۔( تدریب الراوی للسیوطی ۲/۱۷۶)
٭ الفاظ متحد ہوں تو متواتر لفظی بھی کہا جاتا ہے۔
٭ معنی متواتر ہوں الفاط نہیں تو متواتر معنوی اور متواتر قدر مشترک کہتے ہیں ۔
٭ کبھی ایک بڑی جماعت کے ہر قرن میں عمل کی بنیاد پر بھی تواتر کا حکم لگتا ہے، اسکو متواتر عملی کہا جاتاہے۔
٭ کبھی دلائل متواتر ہوتے ہیں تو اسکو متواتر استدلالی کہتے ہیں۔
مثال متواتر اسنادی:۔ من کذب علی متعمدا فلیتبوٗا مقعدہ من النار۔( المسند لا حمد بن حنبل ۴/۱۰۰)
جو شخص قصداً میری طرف جھوٹ منسوب کرے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
٭ امام ابن صلاح نے کہا: اس حدیث کو ۶۲ صحابہ کرام نے روایت کیا ۔ نیز فرمایا ؒ اسکی سند میں تمام عشرۃ مبشرۃ بھی ہیں، اس حدیث کے علاوہ کسی دوسری حدیث میں ان سب کا اجتماع نہ ہوا۔ اور بذات خود حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کر نے والے صحابہ کرام اس کثرت سے کسی دوسری حدیث میں نہیں ۔
٭ امام نووی نے فرمایا: تقریباً دو سو صحابہ کرام سے یہ حدیث مروی ہے۔
٭ امام عراقی کہتے ہیں:۔ خاص اس متن کے ساتھ ستر سے زائد صحابہ کرام سے روایت آئی ۔
مثال متواتر لفظی:۔ نظم قرآن کریم۔
قرآن کریم عہد رسالت سے آج تک انہیں الفاظ کے ساتھ نقل ہوتا آیا جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہو ا تھا۔ ہر طبقہ میں بے شمار افراد اسکے راوی رہے لہذا نہ کسی سند کی ضرورت اورنہ کسی اسناد کی حاجت، اسکو متواتر طبقہ کہہ سکتے ہیں۔
مثال متواتر معنوی:۔ کان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اذا رفع فی الدعاء لم یجطہماحتی یمسح بہما وجہہ، (الجامع للترمذی باب رفع الایدی ۲/۱۷۴)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک چہرہ پر نہ پھیر لیتے۔
اس حدیث سے دعا کے وقت ہاتھ اٹھا نے کا ثبوت ملتا ہے، اس سلسلہ میں ایک سو کے قریب احادیث ہیں جن میں مختلف مواقع پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے ، الگ الگ کوئی حدیث حد تواتر کو نہیں پہونچی مگر ان کا قدر مشترک مفہوم یعنی دعاکے وقت ہاتھ اٹھانا متواتر ہے۔
اسی باب سے ہے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مطلق معجزہ کا صدور کہ اگر چہ معجزات فرداً فرداً خبر واحد یا خبر مشہور سے ثابت ہوں لیکن جن روایات میں معجزہ کا ذکر ہے وہ متواتر ہیں۔
متواتر عملی کی مثال:۔ وضو میںمسواک، کہ عملاً اگر چہ سنت ہے لیکن اسکی سنیت کا اعتقاد فرض ہے، کیونکہ یہ تواتر عملی سے ثابت شدہ ہے، لہذا اسکی سنیت کا انکار کفر ہوگا۔
اسی قسم سے دن و رات میں پانچ نمازوں کا ثبوت بھی ہے، کہ ہر زمانہ میں اہل اسلام پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے آئے اور بالاتفاق تمام مسلمان ا ن کو فرض جانتے اور مانتے ہیں حتی کہ غیر مسلم بھی اس بات سے واقف ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
متواتر استدلالی کی مثال:۔ اجماع ،خبر واحد اور قیاس کا حجت شرعی ہونا ایسے دلائل سے ثابت ہے جو شمار میںلا تعداد ہیں اور مختلف مواقع پر مذکورہیں، یہ الگ ا لگ تو اگر چہ ظنی ہیں مگر ان کا حاصل ایک ہے۔
حکم۔ حدیث متواتر علم قطعی یقینی بدیہی کا فائدہ دیتی ہے، راویوں سے بحث نہیں کی جاتی، اسکےمضمون کا انکار کفر ہے۔
تصنیفات فن
اس نوعیت کی متعدد تصانیف معرض وجود میں آئیں۔ بعض حسب ذیل ہیں۔
۱۔ الفوائد المتکاثرۃ فی الاخبار المتواترۃ للسیوطی،
۲۔ الازہار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ للسیوطی،
۳۔ قطف الازہار للسیوطی،
۴۔ نظم المتناثر من الحدیث المتواتر للکتانی،
۵۔ اتحاف ذوی الفضائل المشتہرۃ بما وقع من الزبادات فی نظم المتناثر علی الازہار المتنا ثرۃ لا بی الفضل عبد اللہ صدیق۔
تعریف خبر واحد:۔ وہ حدیث جو تواتر کی حد کو نہ پہونچے۔
حکم:۔ ظن غالب کا افادہ کر تی ہے، اور اس سے حاصل شدہ علم نظری ہو تا ہے۔
اسکی دو قسمیں ہیں :۔
با عتبار نقل با عتبار قوت وضعف
باعتبار نقل یعنی ہم تک پہونچنے کے اعتبار سے اسکی تین قسمیں ہیں :۔
Xمشہور X عزیز Xغریب
خبر مشہور
تعریف:۔ ہر طبقہ میں جسکے راوی تین یازائد ہوں بشرطیکہ حد تواتر کو نہ پہونچیں، اسکو مستفیض بھی کہتے ہیں۔
بعض کے نزدیک عموم خصوص کی نسبت ہے کہ مستفیض خاص ہے، یعنی جسکے رواۃ ہر زمانہ میں یکساں ہوں بر خلاف مشہور، بعض نے اسکے بر عکس کہا ہے۔
مشہور فقہاء و اصولیین :۔ مشہور کی غیر اصطلاحی تعبیر یوں بھی منقول ہے کہ وہ حدیث کہ عہد صحابہ میں ناقل تین سے کم رہے مگر بعد میں اضافہ ہو گیا اور تلقی امت با لقبول سے ممتاز ہو گئی ، گویا انکے نزدیک متواتر اور خبر واحد کے درمیان برزخ ہے۔
مشہور عرفی :۔ جو حدیث عوام و خواص میں مشہور ہوئی خواہ شرائط شہرت ہوںیا نہ ہوں۔
یہ محدثین، فقہاء اصولیین اور عوام کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔
مثال نزد محدثین :۔ قنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شہرا بعد الرکوع یدعو علی رعل وذکوان۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۳/۳۵۰)
مثال نزد فقہاء:۔ من سئل عن علم فکتمہ الجم بلجام من نار۔ (المستدرک للحاکم ۱/۱۰۱)
مثال نزد اصولیین:۔ رفع عن امتی الخطاء و النسیان۔( کنز العمال للمتقی ، ۱۰۳۰۷)
مثال نزد عوام:۔ اختلاف امتی رحمۃ۔ (اتحاف السادۃ للزبیدی ۱/۲۰۴)
العجلۃ من الشیطان۔ (السنن الکبری للبیہقی ۱/ ۱۰۴)
لیس الخبر کالمعا نیۃ۔ (المسند لا حمد بن حنبل ۱/۲۷۱)
حکم:۔ مشہور کے مراتب مختلف ہیں ، مشہور اصطلاحی اگر صحیح ہے تو اسکو بعد کی تمام اقسام پر ترجیح حاصل ہوگی ۔( تدریب الراوی للسیوطی ۲/۱۷۲)
تصانیف فن
اس نوع کی احادیث میں مندرجہ ذیل کتب مشہور ہیں :۔
۱۔ التدکرۃ فی الاحادیث المشہرۃ للزرکشی، م ۷۹۴ھ
۲۔ المقاصد الحنسۃ فیما اشتہر علی الالسنۃ للسخاوی، م ۹۰۲ھ
۳۔ کشف الخفا و مزیل الالباس فیما اشتہر من الحدیث
علی السنۃ الناس للعجلونی، م۱۱۲۲
۴۔ تمیز الطیب من الخبیث فیما یدور علی السنۃ الناس
من الحدیث للشیبانی، م۹۴۴
خبر عزیز
تعریف:۔ وہ حدیث جسکے راوی کسی طبقہ میںدو سے کم نہ ہوں۔
مثال:۔ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وو لدہ والناس اجمعین۔(المسند لا حمد بن حنبل ۳/۲۰۷)
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن کا مل نہیں جب تک اسکے نزدیک میری محبت ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں کی محبت پر غالب نہ ہو۔
اس حدیث مبارک کو صحابہ کرام میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے روایت کیا ۔
پھر بعض تفصیلات یوں ہیں۔
٭ حضرت انس سے قتادہ اور عبد العزیز نے
٭ حضرت قتادہ سے شعبہ اور سعید نے
٭ حضرت عبد العزیز سے اسمعیل بن علیہ اور عبد الوارث نے ۔( تدریب الراوی للسیوطی ۲/ ۱۸۱)
خبر غریب
اسکی دو قسمیں ہیں:۔
٭ غریب اسنادی ٭ غریب لغوی
تعریف غریب اسنادی:۔ کسی ایک طبقہ میں ایک راوی ہو، اسکو فرد بھی کہتے ہیں،۔
اسکی بھی دو قسمیں ہیں ۔
٭غریب مطلق ٭غریب نسبی
٭فرد مطلق ٭فرد نسبی
انکے بیان کے لئے ’’تفرد فلاں‘‘ اور ’’اغرب فلاں‘‘ کہا جاتا ہے۔
تعریف غریب مطلق:۔ سند حدیث کے اولین طبقہ میں تفرد و غرابت ہو۔
مثال اول:۔ انما الاعمال بالنیات۔(الجامع الصحیح للبخاری ۱/۲)
اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
اس حدیث کی اول سند میں حضرت عمر فاروق اعظم تنہا ہیں ، یہ حدیث غریب مطلق ان لوگوں کے نزدیک شمار ہو گی جو اولین طبقہ سے مراد صحابہ کرام لیتے ہیں۔
مثال دوم:۔ الایمان بضع و سبعون شعبۃ و الحیاء شعبۃ من الایمان۔(مجمع الزوائد للہیثمی ۱/۳۶)
ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں ، ان میں حیاء بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔
یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صرف ابو صالح نے اور ابو صالح سے صرف عبد اللہ بن دینار نے روایت کی ہے، لہذا جو حضرات اولین طبقہ سے تابعین مراد لیتے ہیں انکے نزدیک یہ بھی غریب مطلق ہی شمار ہو گی۔
مثال سوم:۔ نھی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن بیع الولاء و ہبۃ، (المسند لا حمد بن حنبل ۲ /۹)
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ولاء ( یعنی غلام آزاد کرنے کے بعد آقا کا جو حق غلام سے متعلق رہ جاتا ہے) کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔
اس حدیث کو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عبد اللہ بن دینار نے تنہا روایت کیا۔
تعریف غریب نسبی:۔ درمیان طبقہ میں غرابت ہو۔
مثال:۔ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دخل مکۃ وعلی رأسہ المغفر،
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میںداخل ہوئے تو آپکے مبارک سر پر خود تھا۔ اس حدیث کو امام زہری سے صرف امام مالک نے روایت کیا۔(مقدمہ ابن صلاح ۱۳۷)
حکم:۔ ان احادیث کا حکم بھی مشہور احادیث کی طرح ہے کہ ہر حدیث کا صحیح اور معتمد ہونا ضروری نہیں بلکہ حسب موقع مختلف مراتب ہو تے ہیں۔
بلکہ غرائب پر اکثر جرح ہی ہو تی ہے۔
مندرجہ ذیل کتب میں اکثر و بیشتر احادیث غرائب مذکورہیں۔
المسند للبزار م ۲۹۲ھ
المعجم الاوسط للطبرانی م ۳۶۰ھ
تضانیف فن
٭ غرائب مالک للدار قطنی م ۳۸۵
٭ الا فراد للدارقطنی
٭ السنن التی تفرد بکل سنۃ منہا اہل بلدۃ لا بی داؤد م۲۷۵
غریب لغوی
تعریف:۔ متن حدیث میں کوئی ایسا لفط آجائے جو قلیل الاستعمال ہونے کی وجہ سے غیرظاہر ہو۔
یہ فن نہایت عظیم ہے، اس میںنہایت احتیاط اور تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے، کیونکہ معاملہ کلام نبوی کی شرح و تفسیر کا ہے ، لہذا کلام الہی کی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کلام کی تشریخ و تفسیر بھی محض رائے سے مذموم قرار دی جائے گی۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی لفظ غریب کے بارے میں سوال ہو ا تو فرمایا: اس فن کے لوگوں سے پوچھو، مجھے خوف ہے کہ کہیں میں اپنے ظن و تخمین سے کوئی بات کہہ دوں اور غلطی میں مبتلا ہو جاؤں۔
امام ابو سعید اصمعی سے ابو قلابہ نے پوچھاحضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان ’’الجار احق بسقبۃ‘‘ کے کیا معنی ہیں ، فرمایا:میں اپنی رائے سے اس حدیث کی تفسیر نہیں کر سکتا۔ البتہ اہل عرب ’سقب‘ کے معنی قرب و نزدیکی بیان کر تے ہیں(مقدمہ ابن صلاح ۱۳۷)
یہ دونوں واقعے اسی غات احتیاط کی طرف مشیر ہیں ۔
بہترین تفسیر وہ کہلاتی ہے جو خود حضور ہی سے کسی دوسری حدیث میں منقول ہو۔
صل قائما فان لم تستطع فقاعدا فان لم تستطع فعلی جنبْ ۔ (الجامع الصحیح للبخاری)
کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر یہ نہ ہو سکے تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر یہ نہ ہو سکے تو پہلو پر۔
دوسری روایت جو حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ہے اس میں حضور نے ’فعلی جنب‘ کی تفسیر یو ں فرمائی ، داہنی کروٹ کے بل قبلہ رخ ہو کر ۔
تصانیف فن
٭ کتاب نضر بن شمیل ، اولین کتاب م ۲۰۴
٭ غریب الحدیث لا بن عبید قاسم بن سلام م ۲۲۴
٭ غریب الحدیث لعبد اللہ بن مسلم الدینوی م ۲۲۷
٭ النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر لا بن اثیر م ۶۰۶
٭ الفائق لجاراللہ الزمخشری م ۵۳۸
٭ مجمع بحار الانوارلمحمد بن طاہر الہندی م ۹۸۶
فقہاء احناف اور تقسیم مذکور
خبر باعتبار نقل فقہا کے نزدیک قدرے اختلاف کے ساتھ یوں منقول ہے:۔
اولاً باعتبار نقل دو قسمیں ہیں ۔
Xسند Xمرسل
مسند :۔ وہ حدیث جو پوری سند کے ساتھ مروی ہو۔
مرسل :۔ جسکے بعض یا کل راوی غیر مذکور ہوں۔
پھر مسند کی تین اقسام ہیں: ۔
Xخبر متواتر X خبر مشہور X خبر واحد
خبر متواتر:۔ تعریف و حکم میں مثل سابق ہے۔
خبر مشہور:۔ عہد صحابہ میں عزیز یا غریب تھی بعدہ حد تواتر کو پہونچ گئی یا بالعموم مشہور ہو گئی ۔
حکم :۔ ثبوت و قطعیت میں متواتر سے قریب ہے، اس سے حاصل شدہ علم موجب اطمینان
اور انکار گمراہی ہو تا ہے۔
باعتبار ثبوت متواتر و مشہور دونوں با یں معنی مساوی درجہ رکھتی ہیں کہ قرآن کریم میں کوئی حکم اس سلسلہ میں نہ ملے جس مضمون کو یہ بیان کر رہی ہیں تو ان کو بھی اسی درجہ میں شمار کیا جائے گا جس درجہ میں آیت کا مضمون ہو تا ہے۔
خبر واحد:۔ وہ حدیث جو کسی عہد میں تواتراور شہرت کی حد کونہ پہونچے۔ خواہ راوی ہر دور میں ایک ہو یا چند، خواہ ہر طبقہ میں ایسا ہو یا ایک دو طبقات میں ۔
گویا محدثین کے نزدیک عزیز غریب بلکہ بسا اوقات مشہور بھی اسکے تحت آسکتی ہے ۔
حکم:۔ لائق احتجاج ہوتی ہے ، ظن غالب کا افادہ کر تی ہے ، اور چند شرائط کے ساتھ واجب العمل قرار پاتی ہے۔
شرائط آٹھ ہیں : ۔
Xچار باعتبار راوی X چار باعتبار مروی
۱۔ راوی مسلمان ہو ، عاقل بالغ ہو، عادل ہو، ضابط ہو۔
۲۔ روایت قرآن کے مخالف نہ ہو۔ متواتر دستور کے خلاف نہ ہو۔
۳۔ کسی ایسے مسئلہ کے مخالف نہ ہو جس سے عوام و خواص سب کا سابقہ پڑتا ہو۔ اور حالات کا تقاضہ ہو کہ وہ سب کے علم میں ہوگی۔
ٓ۴۔ صحابہ کرام نے باہمی اختلافات میں اس سے استدلال کیا ہو۔
جیسے راوی سے قولاً یا فعلاً اسی حدیث کی مخالفت ثابت ہو ۔ یا فقہاء صحابہ اور ائمہ فقہ و حدیث سے مخالفت ثابت ہو جبکہ قرائن حدیث کا تقاضہ ہو کہ وہ اس حدیث سے ناواقف نہ ہوں گے تو اس پر عمل جائز نہیں ۔
اول صورت میں اسکو نسخ پر اوردوسری صورت میں عدم ثبوت اور عدم صحت پر محمول کریں گے۔ جیسے کسی راوی نے اپنی روایت کا اظہار کر دیا تو روایت مقبول نہیں اور انکار رجوع پر محمول ہوگا۔
یہاں ایک بات اور اہم ہے کہ سننے کے بعد سے روایت برابر راوی کے ذہن میں محفوظ ہو۔ ذہول نہ ہو جائے۔ ہاں تحریر میں محفوظ ہے اور رتحریر دیکھ کر یاد آگئی تو اعتبار ہو گا ورنہ نہیں ۔ یہ امام اعظم کے نزدیک ہے ، امام ابو یوسف فرماتے ہیں ، تحریر اپنے پاس ہو یا دوسرے کے پاس لیکن اطمینان ہو تو کافی ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث ۲۰۳)
اسی انداز کی شرطوں کی وجہ سے اہل تحقیق بیان کر تے ہیں کہ امام اعظم نے احادیث کے ردو قبول کا جو معیار اپنایا تھا وہ عام محدثین سے سخت تر تھا۔(السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی ۴۲۲)