وَلُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمۡ بِهَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 80
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمۡ بِهَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے لوط کو بھیجا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسی بےحیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کی
تفسیر:
80 ۔ 84:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور ہم نے لوط کو بھیجا۔ (الایۃ) ” (الاعراف :80 ۔ 84)
حضرت لوط (علیہ السلام) کا شجرہ نسب :
امام ابو القاسم علی بن الحسن بن عساکر متوفی 571 لکھتے ہیں : حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ ان کا شجرہ نسب یہ ہے : لوط بن ھاران (ھاران حضرت ابراہیم کے بھائی تھے) بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارعو بن نافع بن غابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح بن لمک بن متوشلخ بن خنوخ (یہ حضرت ادریس ہیں) بن مھلاییل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام) ۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے اللہ کی راہ میں قتال کیا وہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمن ہیں جب اہل روم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو قید کرلیا تو حضرت ابراہیم نے ان سے قتال کیا اور حضرت لوط کو چھڑایا۔
حضرت انس رضٰ اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت عثمان (رض) نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے متعلق کوئی خبر نہیں ملی، آپ ان کے متعلق خبروں کے منتظر تھے کہ قریش کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی اے ابو القاسم ! میں نے آپ کے داماد کو سفر میں دیکھا ہے، ان کی اہلیہ کمزور لوگوں کے ساتھ دراز گوش پر سوار تھیں اور وہ اس کو چلا رہے تھے اور اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ ان دونوں کا صاحب ہو، بیشک لوط (علیہ السلام) کے بعد عثمان اپنے اہل کے ساتھ اللہ کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے شخص ہیں۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کا مقام بعثت :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ارض مقدسہ کی طرف بھیجا گیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو چار شہروں کی طرف بھیجا گیا : سدوم، اموراء، عاموراء اور صبویراء۔ ان میں سے ہر شہر میں ایک لاکھ جنگ جو لوگ تھے ان کا مجموہ چار لاکھ تھا۔ ان میں سب سے بڑا شہر سدوم تھا۔ حضرت لوط اسی میں رہتے تھے، یہ شام کے شہروں میں سے ہے اور فلسطین سے ایک دن اور رات کی مسافت پر واقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو مہلت دی تھی انہوں نے اسلامی شرم و حیاء کے حجاب چاک کردیے اور بہت بڑی بےحیائی کا ارتکاب کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دراز گوش پر سوار ہو کر قوم لوط کے شہروں میں جاتے اور ان کو نصیحت کرتے وہ ان کی نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جس علاقہ میں رہتی تھی اس کو آج کل شرقی اردن کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ عراق اور فلسطین کے درمیان میں واقع ہے۔ تورات میں اس علاقہ کے صدر مقام کا نام سدوم بتایا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہوچکا ہے۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگار باقی ہے جسے آج تک بحرلوط کہا جاتا ہے۔ اردن کی وہ جانب جہاں آج بحر مردار یا بحر لوط واقع ہے، اس کے قریب رہنے والوں کا اعتقاد ہے کہ یہ تمام حصہ جو اب سمندر نظر آتا ہے کسی زمانہ میں یہ خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے سدوم اور عامورا وغیرہ یہٰں تھے۔ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور اس زمین کا تختہ الٹ دیا گیا اور سخت زلزلے آئے تب یہ زمین تقریبا چار سو میٹر سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا۔ اس سے اس کا نام بحر مردار اور بحر لوط ہے۔ اس زمانہ کے محققین نے بھی بحر مردار کے ساحل پر بعض تباہ شدہ بستیوں کے آثار دیکھ کر یہ یقین کرلیا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جس جگہ کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے۔
حضرت لوط کے ہاں فرشتوں کا حسین اور نوخیز لڑکوں کی شکل میں مہمان ہونا :
حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ جب بدمعاشوں نے یہ سنا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس مہمان آئے ہیں تو وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے دروازہ پر پہنچے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے دروازہ بند کردیا اور کہا تم میری بیٹیوں سے نکاح کرلو۔ (ھود :67) حضرت لوط کو اپنے مہمانوں کی بےحرمتی کا اندیشہ تھا اور ان کے ہاں یہ دستور تھا کہ ایک شخص صرف ایک عورت سے نکاح کرتا تھا، انہوں نے کہا : تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری بیٹیوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ ہماری خواہش کیا ہے۔ (ھود :79) حضرت لوط نے فرمایا : اللہ سے ڈرو اور مجھے اپنے مہمانوں کے متعلق شرمندہ نہ کرو، کیا تم میں کوئی نیک آدمی نہیں ہے ؟ انہوں نے حضرت لوط کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور دروازہ توڑ کر اندر گھس گئے۔ پھر حضرت جبرئیل اپنی اصل صورت میں آگئے اور کہا : اے لوط ! پریشان نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں یہ ہم تک نہیں پہنچ سکتے، ہمیں ان کو عذاب دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت جبرئیل نے کہا : آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں، وہ لوگ جب اندر آئے تو حضرت جبرئیل نے اپنے پر ان کے چہروں پر مل دیے ان کے چہرے خون آلود ہوگئے اور ان کی آنکھیں کل زمین پر گرپڑیں۔ تب انہوں نے کہا اے لوط، تمہارے پاس جادوگر تھے جنہوں نے ہمیں اندھا کردیا وہ ٹھوکریں کھاتے ہوئے باہر نکلے اور جیسے ہی صبح ہوئی، ان کو عذاب نے آلیا۔
قوم لوط میں ہم جنس پرستی کی ابتداء :
حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم میں عورتوں کی بجائے مردوں سے نفسانی خواہش پوری کرنے کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ان کے باغات میں پھل تھے اور ان کے گھروں سے باہر لٹکتے رہتے تھے، ایک بار ان کے ہاں قحط پڑگیا اور پھلوں میں کمی ہوگئی۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ جو پھل باہر لت کے ہوئے ہوتے ہیں اگر تم مسافروں کو ان کے کھانے سے منع کردو تو تمہارے لیے کشادگی ہوجائے گی۔ انہوں نے سوچا کس طرح منع کریں پھر انہوں نے یہ قانون بنایا کہ جو مسافر بھی پھل توڑے گا اس کو ان کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا اور اس کو چار درہم رمانہ دینا ہوگا۔ اس طرح تمہارے پھل محفوظ رہیں گے اور یوں ان کو ہم جنس پرستی کی لت پڑگئی اور یہ وہ قبیح فعل تھا جو ان سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا تھا۔
قوم لوط میں اس عمل کی ابتداء کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک دن ان کے مردوں کے پاس شیطان انتہائی خوبصورت بچے کی شکل میں آیا اور اس نے ان کو اپنے ساتھ اس عمل کی دعوت دی۔ انہوں نے اس کے ساتھ یہ عمل کیا پھر ان کو اس عمل کی لت پڑگئی۔
حضرت لوط کی بیوی کی خیانت اور قوم لوط کی بری عادتیں :
حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی بیویوں نے خیانت کی تھی۔ ان کی یہ خیانت زنا نہیں کی تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق لوگوں سے یہ کہا تھا کہ یہ مجنون ہیں۔ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جب ان کے پاس فرشتے بہ صورت مہمان آئے تو اس نے لوگوں کو جاکر بتادیا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ضحاک نے کہا حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی بیویوں کی خیانت چغلی کرنا تھی۔
حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قوم لوط کو دس عادتوں کی وجہ سے ہلاک کیا گیا اور میری امت میں اس سے ایک عادت زیادہ ہوگی۔ ان کے مرد ہم جنس پرست تھے، وہ غلیل سے شکار کرتے تھے، کنکریاں مارتے تھے، حمام میں کھیلتے تھے، دف بجاتے تھے، شراب پیتے تھے، داڑھی کٹاتے تھے اور مونچھیں لمبی رکھتے تھے، سیٹی بجاتے تھے اور تالیاں پیٹتے تھے، ریشم پہنتے تھے اور میری امت میں ان سے ایک عادت زیادہ ہوگی کہ عورتیں عورتوں سے جنسی خواہش پوری کریں گی۔ (کنزل العمال، 10314، مختصر تاریخ دمشق، ج 21، ص 236 ۔ 241، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1410 ھ)
عمل میں قوم لوط کی عقلی قباحتیں :
امام رازی متوفی 606 ھ نے قوم لوط کے عمل (اغلام) کی حسب ذیل عقلی خرابیاں بیان کی ہیں :۔
1 اکثر لوگ اولاد کے حصول سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ اولاد کی وجہ سے انسان پر ان کی پرورش کا بوجھ پڑجاتا ہے جس کو اٹھانے کے لیے انسان کو زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماع کو بہت بڑی لذت کے حصول کا سبب بنادیا ہے، انسان اس لذت کے حصول کے لیے جماع کے فعل کا اقدام کرتا ہے۔ اور جماع کے بعد خواہی نخواہی بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سل انسانی کی بقاء کے لیے جماع میں یہ لذت رکھی ہے۔ اب اگر انسان اس لذت کو کسی اور طریقہ سے حاصل کرلے جس سے بچہ پیدا نہ ہو تو اس سے وہ حکمت مطلوبہ حاصل نہیں ہوگی اور اس سے نسل انسانی منقطع ہوگی اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے اس لیے اس عمل کا حرام ہونا ضروری ہوا۔
2 ۔ مرد اپنی فطرت اور وضع کے اعتبار سے فاعل ہے اور عورت منفعل ہے اور جب اس عمل کے نتیجہ میں مرد خود منفعل ہوگا تو یہ فطرت اور حکمت کے خلاف ہے۔
3 ۔ قضاء شہوت کے لیے مرد کا عورت کے ساتھ یہ عمل کرنا جانوروں کے شہوانی عمل کے مشابہ ہے، اس عمل کو صرف اس وجہ سے اچھا قرار دیا گیا ہے کہ یہ حصول اولاد کا سبب ہے۔ اور جب یہ عمل اس طریقہ سے کیا جائے جس میں حصول اولاد ممکن نہ ہو تو یہ نری حیوانیت ہے اور انسانیت کے بلند مقام سے حیوانوں کی پستی میں جا گرنا ہے۔
4 ۔ جب مرد، مرد کے ساتھ یہ فعل کرے گا تو مان لیا کہ فاعل کو اس عمل سے لذت حاصل ہوگی مگر اس مفعول کو بہت بڑا عار اور عیب لاحق ہوگا، جو تمام عمر اس کی ذلت اور رسوائی کا سبب ہوگا اور وہ کبھی فاعل کے ساتھ آنکھ ملا کر بات نہیں کرسکے گا تو ایسی چند منٹ کی خسیس اور گھٹیاں لذت کے حصول کا کیا فائدہ جس سے دوسرے شخص کو تمام عمر کے لیے عیب لگ جائے۔
5 ۔ اس عمل کے بعد فاعل اور مفعول میں دائمی عداوت ہوجاتی ہے اور مفعول کو فاعل کی شکل سے نفرت ہوجاتی ہے اور بعض اوقات مفعول فاعل کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس کے برعکس شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جب یہ عمل کرتا ہے تو ان میں الفت اور محبت اور بڑھتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ” خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا و جعل بینکم مودۃ ورحمۃ : اس نے تمہارے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی ہے ” (الروم :31)
6 ۔ اللہ تعالیٰ نے رحم میں منی کو جذب کرنے کی بہت زبردست قوت رکھی ہے پس جب مرد عورت کے ساتھ یہ عمل کرتا ہے تو مرد کے عضو کی نالی سے منی کے تمام قطرات منجذب ہو کر عورت کے رحم میں پہنچ جاتے ہیں، اس کے برعکس جب مرد، مرد کے ساتھ یہ عمل کرے گا تو مفعول کی مقعد میں چونکہ منی کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو اس عمل کے بعد فاعل کے عضو کی نالی میں کچھ قطرات اور ذرات رہ جاتے ہیں جن میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے جس سے عضو سوج جاتا ہے اور مہلک قسم کے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً سوزاک وغیرہ۔
قرآن مجید میں عمل قوم لوط کی مذمت :
قرآن مجید کی حسب ذیل آیات میں قوم لوط کے عمل کی مذمت فرمائی گئی ہے : ” اتاتون الذکران من العالمین۔ وتذرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم بل انتم قوم عادون : کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے پاس آتے ہو ؟۔ اور اپنی ان بیویوں کو چھوڑ دیتے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو ” (الشعراء :165 ۔ 166) ۔ ” انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء بل انتم قوم مسرفون : بیشک تم عورتوں کو چھور کر نفسانی خواہش کے لیے مردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم تو حیوانوں کی حد سے (بھی) تجاوز کرنے والے ہو ” (الاعراف :81)
احادیث میں عمل قوم لوط کی مذمت اور سزا کا بیان :
امام ابو داود سلیمان بن اشعث متوفی 275 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضٰ اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جن لوگوں کو تم قوم لوط کا عمل کرتے پاؤ تو فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کردو۔ (سنن ابوداود، رقم الحدیث : 4462 ۔ سنن الترمزی رقم الحدیث : 1461 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2561 ۔ شعب الایمان رقم الحدیث : 5836)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 1462 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2563 ۔ المستدرک ج 4، ص 357)
حضرت جابر بن عبداللہ رضٰ اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرایا : جب اہل ذمہ پر ظلم کیا جائے گا تو دشمن کی حکومت ہوجائے گی اور جب زبا بہ کثرت ہوگا تو قیدی بہ کثرت ہوں گے اور جب قوم لوط کا عمل کرنے والے زیادہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنا دست رحمت مخلوق سے اٹھا لے گا پھر وہ کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتے ہیں ” (المعجم الکبیر، ج 2، رقم الحدیث : 1755 ۔ مجمع الزوائد، ج 6، ص 255) ۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ساتھ قسم کے لوگوں کو سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت فرماتا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک پر تین بار لعنت کو دہراتا ہے۔ فرماتا ہے : جس نے قوم لوط کا عمل کیا، وہ ملعون ہے، جس نے اوم لوط کا عمل کیا وہ ملعون ہے، جس نے قوم لوط کا عمل کیا، وہ معلون ہے۔ جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا وہ ملعون ہے، جس نے جانوروں کے ساتھ بدفعلی کی وہ ملعون ہے، جس نے اپنے ماں باپ سے تعلق توڑا وہ ملعون ہے۔ جس نے ایک عورت اور اس کی بیٹی کو ایک نکاح میں جمع کیا وہ ملعون ہے، جس نے اللہ کی حدود کو بدلا وہ معلون ہے۔ جس نے اپنے آپ کو اپنے مالکوں کے غیر کی طرف منسوب کیا وہ ملعون ہے ” (المعجم الاوسط، ج 9، رقم الحدیث : 8492 ۔ مجمع الزوائد، ج 6، ص 272)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چار شخص ایسے ہیں جو اللہ کے غضب میں صبح کرتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی میں شام کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت کریں اور وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں، اور جو لوگ جانوروں سے بدفعلی کریں اور جو لوگ مردوں سے خواہش پوری کریں۔ (المعجم الاوسط، ج 7، رقم الحدیث : 6854 ۔ شعب الایمان، رقم الحدیث : 5830 ۔ الکامل لابن عدی، ج 6، ص 2233، مجمع الزوائد)
محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر صدیق رضٰ اللہ عنہ کو خط لکھا کہ میں نے عرب کے بعض قبیلوں میں یہ دیکھا ہے کہ وہاں مرد کے ساتھ اس طرح فعل کیا جاتا ہے جس طرح عورت کے ساتھ فعل کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس مسئلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے مشورہ کیا۔ ان میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) بھی تھے۔ انہوں نے کہا : یہ وہ گناہ ہے جس کو صرف ایک امت نے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو اس امت پر عذاب بھیجا اس کا آپ لوگوں کو علم ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا اس پر اجماع ہوگیا کہ اس کو آگ میں جلا دیا جائے۔ پھر حضرت ابوبکر نے اس شخص کو آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (شعب الایمان، رقم الحدیث : 5389)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جو شخص قوم لوط کا عمل کرتا ہو اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اوپر والے اور نیچے والے دنوں کو رجم (سنگسار) کردو۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : 2562 ۔ المستدرک ج 4، ص 355 ۔ المعجم الاوسط، ج 4، رقم الحدیث : 3128 ۔ مجمع الزوائد، ج 6، ص 272)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل اس مرد کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا جو مرد سے جنسی خواہش پوری کرے یا عورت سے عمل معکوس کرے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1168 ۔ صحیح ابن حبان، رقم الحدیث : 4191)
حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ لوطی کی حد کیا ہے ؟ فرمایا اس کو شہر کی سب سے اونچی عمارت سے نیچے پھینکا جائے، پھر اس کو سنگسار کردیا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج 9، ص 529 ۔ السنن الکبری، ج 8، ص 332)
یزید بن قیس نے بیان کیا کہ حضرت علی نے لوطی کو سنگسار کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج 9، ص 530 ۔ السنن الکبری، ج 8، ص 332)
زہری نے بیان کیا کہ اگر لوطی شادی شدہ ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر کنوارا ہو تو اس کو سو کوڑے مارے جائیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج 9، ص 531 ۔ مصنف عبدالرزاق، ج 7، ص 363 ۔ السنن الکبری، ج 8، ص 333)
عمل میں قوم لوط کی سزا میں مذاہب فقہاء :
علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں : اس فعل کی سزا میں امام احمد سے مختلف روایتیں ہیں ایک روایت یہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ وہ کنوارہ ہو یا شادی شدہ، اس کو سنگسار کردیا جائے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، جابر بن زید، عبداللہ بن معمر اور زہری کا بھی یہی مسلک ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب مرد، مرد سے خواہش پوری کرے تو وہ دونوں زانی ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کو جلا دیا جائے اور دوسری روایت یہ ہے کہ دونوں کو قتل کردیا جائے کیونکہ سنن ابوداود میں یہ حدیث ہے کہ تم جن کو قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کردو۔ (المغنی، ج 9، ص 58، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1405 ھ)
امام شافعی کے نزدیک اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا اور اگر وہ کنوارہ ہے تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ فعل زنا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فعل وطی حرام ہونے میں زنا کے مشابہ ہے۔ (شرح المہذب، ج 20، ص 22، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں : امام مالک کے نزدیک فاعل کو رجم کیا جائے گا خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ۔ اسی طرح مفعول اگر بالغ ہو تو اس کو بھی سنگسار کیا جائے گا۔ امام مالک سے دوسری روایت یہ ہے کہ اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا اور اگر وہ کنوارہ ہے تو اس کو قید کیا جائے گا اور اس کو سزا دی جائے گی۔ عطاء، ابراہیم نخعی اور ابن المسیب کا بھی یہی مذہب ہے۔
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں : امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس فعل میں مطلقاً حد نہیں ہے بلکہ تعزیر ہے۔ امام ابویوسف کے نزدیک اگر اس نے کسی اجنبی کے ساتھ یہ فعل کیا ہے تو اس پر حد ہے، کنوارے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا اور اگر اس نے اپنے غلام، باندی یا بیوی کے ساتھ یہ فعل کیا ہے تو اس پر بالاتفاق حد نہیں ہے بلکہ تعزیر ہے۔ زیادات میں مذکور ہے اگر کوئی شخص اس فعل کا عادی ہے تو پھر اس کی سزا خلیفہ کی طرف مفوض ہے۔ اگر وہ مناسب سمجھے تو اس کو قتل کردے، اگر چاہے تو اس کو کوڑے مارے اور اگر چاہے تو اس کو قید کردے۔ فتح القدیر میں مذکور ہے اگر کوئی شخص بار بار یہ فعل کرے تو مفتی بہ قول پر اس کو قتل کردیا جائے گا۔ درر غرر میں مذکور ہے تعزیر یہ ہے کہ اس کو آگ میں جلا دیا جائے یا اس پر دیوار گرا دی جائے یا اس کو بلندی سے گرا دیا جائے پھر اس کو سنگسار کیا جائے۔ الحاوی میں مزکور ہے اس کو کوڑے مارنا زیادہ صحیح ہے۔ فتح القدیر میں مذکور ہے اس کو قید میں رکھا جائے حتی کہ وہ توبہ کرلے یا مرجائے اور اگر وہ اس فعل کا عادی ہو تو اس کو خلیفہ المسلمین قتل کردے۔ (رد المحتار، ج 3، ص 155 ۔ 156، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1407 ھ)
قوم لوط پر عذاب کی کیفیت :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” وامطرنا علیہم مطرا فانظر کیف کان عاقبۃ المجرمین : سو ہم نے ان پر پتھر برسائے سو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا ” (الاعراف :84)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھئے کہ قوم لوط کے جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی اور انہوں نے دلیری سے بےحیائی کے کام کیے اور مردوں سے خواہش نفس پوری کی، ان کا کیسا انجام ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے جبریل (علیہ السلام) کو حکم دیا انہوں نے اپنا پر ان شہروں کے نیچے داخل کیا اور اس زمین کو اکھاڑ کر بلند کیا حتی کہ آسمان والوں نے کتوں اور مرغوں کی چیخ و پکار کو سنا پھر انہوں نے بلندی سے اس زمین کو پلٹ دیا اور ان پر پتھروں کی کنکریاں برسائیں۔ (الجامع لاحکام القرآن، جز 7، ص 222)
جب عذاب الٰہی کا وقت آگیا اور رات کی ابتداء ہوئی تو فرشتوں کے اشارہ پر حضرت لوط اپنے خاندان سمیت دوسری طرف سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکار کردیا اور راستہ ہی سے لوٹ کر سدوم واپس آگئی۔ جب رات کا پچھلا پہر ہوا تو پہلے تو ایک ہیبت ناک چیخ نے اہل سدوم کو تہ وبالا کردیا پھر آبادی والی زمین کو اوپر اٹھا کر الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام و نشان مٹا دیا اور وہی ہوا جو اس سے پہلے کفار کی نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہوچکا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 80
[…] لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر ہم نے الاعراف 80–83اور ھود :77–83میں کیا ہے۔ ان کا تفصیلی تعارف ان […]