اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)

اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا (۲۴۳) اور اس کے لیے ایک نور کردیا (۲۴۴) جس سے لوگوں میں چلتا ہے (ف۲۴۵) وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے (ف۲۴۶) ان سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں

(ف243)

مُردہ سے کافِر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کُفر قلوب کے لئے موت ہے اور ایمان حیات ۔

(ف244)

نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کُفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ نور سے کتاب اللہ یعنی قرآن مراد ہے ۔

(ف245)

اور بینائی حاصل کر کے راہِ حق کا امتیاز کر لیتا ہے ۔

(ف246)

کُفر و جَہل و تِیرہ باطنی کی ۔ یہ ایک مثال ہے جس میں مومن و کافِر کا حال بیان فرمایا گیا ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اس مُردہ کی طرح ہے جس نے زندگانی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی راہ پاتا ہے اور کافِر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور ان سے نکل نہ سکے ، ہمیشہ حیرت میں مُبتَلا رہے ۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافِر کے لئےعام ہیں اگر چہ بقول حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ان کا شا نِ نُزول یہ ہے کہ ابوجہل نے ایک روز سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی نَجَس چیز پھینکی تھی اس روز حضرت امیرِ حمزہ رضی اللہ عنہ شکار کو گئے ہوئے تھے ، جس وقت وہ ہاتھ میں کمان لئے ہوئے شکار سے واپس آئے تو انہیں اس واقعہ کی خبر دی گئی گو ابھی تک وہ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے مگر یہ خبر سُن کر ان کو نہایت طیش آیا اور وہ ابوجہل پر چڑھ گئے اور اس کو کمان سے مارنے لگے اور ابوجہل عاجزی و خوشامد کرنے لگا اور کہنے لگا اے ابویعلٰی (حضرت امیر حمزہ کی کُنیت ہے) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمّد (مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ) کیسا دین لائے اور انہوں نے ہمارے معبودوں کو بُرا کہا اور ہمارے باپ دادا کی مخالفت کی اور ہمیں بدعقل بتایا ، اس پر حضرت امیرِ حمزہ نے فرمایا تمہارے برابر بدعقل کون ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر پتھروں کو پُوجتے ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمّد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، اسی وقت حضرت امیرِ حمزہ اسلام لے آئے ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو حضرت امیرِ حمزہ کا حال اس کے مشابہ ہے جو مُردہ تھا ، ایمان نہ رکھتا تھا ، اللہ تعالٰی نے اس کو زندہ کیا اور نورِ باطن عطا فرمایا اور ابوجہل کی شان یہی ہے کہ وہ کُفر و جَہل کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور ۔

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَاؕ-وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ(۱۲۳)

اور اُسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کے سرغنہ کیے کہ اس میں داؤں کھیلیں (ف۲۴۷) اور داؤں نہیں کھیلتے مگر اپنی جانوں پر اور انہیں شعور نہیں (ف۲۴۸)

(ف247)

اور طرح طرح کے حیلوں اور فریبوں اور مکاریوں سے لوگوں کو بہکاتے اور باطل کو رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔

(ف248)

کہ اس کا وبال انہیں پر پڑتا ہے ۔

وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ ﲪ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا كَانُوْا یَمْكُرُوْنَ(۱۲۴)

اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے کہتے ہیں ہم ہر گز ایما ن نہ لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسا ہی نہ ملے جیسا اللہ کے رسولوں کو ملا (۲۴۹) اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے (ف۲۵۰) عنقریب مجرموں کو اللہ کے یہاں ذلت پہنچے گی اور سخت عذاب بدلہ ان کے مکر کا

(ف249)

یعنی جب تک ہمارے پاس وحی نہ آئے اور ہمیں نبی نہ بنایا جائے ۔

شانِ نُزول : ولید بن مغیرہ نے کہا تھا کہ اگر نبوّت حق ہو تو اس کا زیادہ مستحق میں ہوں کیونکہ میری عمرسیدِ عالَم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ ہے اورمال بھی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(ف250)

یعنی اللہ جانتا ہے کہ نبوّت کی اہلیت اور اس کا استحقاق کس کو ہے کس کو نہیں ، عمر و مال سے کوئی مستحقِ نبوّت نہیں ہو سکتا اور یہ نبوّت کے طلب گار تو حسد ، مکر ، بدعہدی وغیرہ قبائح افعال اور رذائل خِصال میں مبتلا ہیں ، یہ کہاں اور نبوّت کا منصبِ عالی کہاں ۔

فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۲۵)

اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے (ف ۲۵۱) اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کردیتا ہے(ف۲۵۲) گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو

(ف251)

اس کو ایمان کی توفیق دیتا ہے اور اس کے دل میں روشنی پیدا کرتا ہے ۔

(ف252)

کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ ہو تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہے ۔

وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًاؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ(۱۲۶)

اور یہ (ف۲۵۳) تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے ہم نے آیتیں مُفَصَّل بیان کردیں نصیحت ماننے والوں کے لیے

(ف253)

دینِ اسلام ۔

لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ هُوَ وَلِیُّهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۷)

ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور وہ ان کا مولٰی ہے یہ ان کے کاموں کا پھل ہے

وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ-یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِۚ-وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَاؕ-قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(۱۲۸)

اور جس دن اُن سب کو اٹھائے گا اور فرمائے گا اے جن کے گروہ تم نے بہت آدمی گھیر لیے (ف۲۵۴) اور ان کے دوست آدمی عرض کریں گے اے ہمارے رب ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا (ف۲۵۵) اور ہم اپنی ا س میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی (ف۲۵۶) فرمائے گا آ گ تمہارا ٹھکانا ہے ہمیشہ اس میں رہو مگر جسے خدا چاہے (ف۲۵۷) اے محبوب بے شک تمہارا رب حکمت والا علم والا ہے

(ف254)

ان کو بہکایا اور اغوا کیا ۔

(ف255)

اس طرح کہ انسانوں نے شہوات و مَعاصی میں ان سے مدد پائی اور جِنّوں نے انسانوں کو اپنا مطیع بنایا ، آخر کار اس کا نتیجہ پایا ۔

(ف256)

وقت گزر گیا ، قیامت کا دن آ گیا ، حسرت و ندامت باقی رہ گئی ۔

(ف257)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ اِستثناء اس قوم کی طرف راجع ہے جس کی نسبت علمِ الٰہی میں ہے کہ وہ اسلام لائیں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کریں گے اور جہنّم سے نکالے جائیں گے ۔

وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۠(۱۲۹)

اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلّط کرتے ہیں بدلہ اُن کے کیے کا (ف۲۵۸)

(ف258)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اچھوں کو ان پر مسلّط کرتا ہے ، بُرائی چاہتا ہے تو بُروں کو ۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جو قوم ظالم ہوتی ہے اس پر ظالم بادشاہ مسلّط کیا جاتا ہے تو جو اس ظالم کے پنجۂ ظلم سے رہائی چاہیں انہیں چاہئے کہ ظلم ترک کریں ۔