کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 8 رکوع 4 سورہ الانفال آیت نمبر141 تا 144
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﳲ وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
اور وہی ہے جس نے پیدا کئے باغ کچھ زمین پر چھئے(چھائے) ہوئے (ف۲۸۶) اور کچھ بے چھئے(بے پھیلے) اور کھجور اور کھیتی جس میں رنگ رنگ کے کھانے (ف۲۸۷) اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے (ف۲۸۸) اور کسی میں الگ (ف۲۸۹) کھاؤ اس کا پھل جب پھل لائے اور اس کا حق دو جس دن کٹے (ف۲۹۰) اور بے جا نہ خرچو (ف۲۹۱) بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں
(ف286)
یعنی ٹٹیوں پر قائم کئے ہوئے مثل انگور وغیرہ کے ۔
(ف287)
رنگ اور مزے اور مقدار اور خوشبو میں باہَم مختلف ۔
(ف288)
مثلاً رنگ میں یا پتوں میں ۔
(ف289)
مثلاً ذائقہ اور تاثیر میں ۔
(ف290)
معنٰی یہ ہیں کہ یہ چیزیں جب پھلیں کھانا تو اسی وقت سے تمہارے لئے مباح ہے اور اس کی زکوٰۃ یعنی عُشر اس کے کامل ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے جب کھیتی کاٹی جائے یا پھل توڑے جائیں ۔
مسئلہ : لکڑی ، بانس ، گھانس کے سوا زمین کی باقی پیداوار میں اگر یہ پیداوار بارش سے ہو تو اس میں عُشر واجب ہوتا ہے اور اگر رہٹ وغیرہ سے ہو تو نصف عُشر ۔
(ف291)
حضرت مُترجِم قُدِّسَ سرُّہ نے اِسراف کا ترجمہ بے جا خرچ کرنا فرمایا ، نہایت ہی نفیس ترجمہ ہے ۔ اگر کُل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے عیال کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو سدی کا قول ہے کہ یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اِسراف ہے جیسا کہ سعید بن مُسیّب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ سفیان کا قول ہے کہ اللہ کی طاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جاوے وہ قلیل بھی ہو تو اِسراف ہے ۔ زُہری کا قول ہے کہ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو ۔ مجاہد نے کہا کہ حق اللہ میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قُبَیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہو اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو اِسراف ۔
وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًاؕ-كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ(۱۴۲)
اور مویشی میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین پر بچھے(ف ۲۹۲) کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں روزی دی اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے
(ف292)
چوپائے دو قسم کے ہوتے ہیں کچھ بڑے جو لادھنے کے کام میں آتے ہیں ، کچھ چھوٹے مثل بکری وغیرہ کے جو اس قابل نہیں ، ان میں سے جو اللہ تعالٰی نے حلال کئے انہیں کھاؤ اور اہلِ جاہلیت کی طرح اللہ کی حلال فرمائی ہوئی چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ ۔
ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍۚ-مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ- نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَۙ(۱۴۳)
آٹھ نر اور مادہ ایک جوڑا بھیڑ کا اور ایک جوڑ ابکری کا تم فرماؤ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہیں (ف۲۹۳) کسی علم سے بتاؤ اگر تم سچے ہو
(ف293)
یعنی اللہ تعالٰی نے نہ بھیڑ بکری کے نَر حرام کئے نہ ان کی مادائیں حرام کیں ، نہ ان کی اولاد ، ان میں سے تمہارا یہ فعل کہ کبھی نَر حرام ٹھہراؤ کبھی مادہ ، کبھی ان کے بچّے ، یہ سب تمہارا اِختراع ہے اور ہوائے نفس کا اِتّباع ، کوئی حلال چیز کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوتی ۔
وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ-اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللّٰهُ بِهٰذَاۚ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠(۱۴۴)
اور ایک جوڑا اونٹ کا اور ایک جوڑا گائے کا تم فرماؤ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہیں (ف۲۹۴) کیا تم موجود تھے جب اللہ نے تمہیںیہ حکم دیا (ف۲۹۵) تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے کہ لوگوں کو اپنی جہالت سے گمراہ کرے بے شک اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا
(ف294)
اس آیت میں اہلِ جاہلیت کو توبیخ کی گئی جو اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا کرتے تھے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں آ چکا ہے ، جب اسلام میں احکام کا بیان ہوا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدال کیا اور ان کا خطیب مالک بن عوف جشمی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ یا محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے سُنا ہے آپ ان چیزوں کو حرام کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں حضور نے فرمایا تم نے بغیر کسی اصل کے چند قِسمیں چوپایوں کی حرام کر لیں اور اللہ تعالٰی نے آٹھ نَر و مادہ اپنے بندوں کے کھانے اور ان کے نفع اٹھانے کے لئے پیدا کئے ، تم نے کہاں سے انہیں حرام کیا ، ان میں حُرمت نَر کی طرف سے آئی یا مادہ کی طرف سے ؟ مالک بن عوف یہ سن کر ساکِت اور متحیّر رہ گیا اور کچھ نہ بول سکا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بولتا کیوں نہیں ، کہنے لگا آپ فرمائیے میں سنوں گا سبحان اللہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی قوت اور زور نے اہلِ جاہلیت کے خطیب کو ساکت و حیران کر دیا اور وہ بول ہی کیا سکتا تھا ، اگر کہتا کہ نَر کی طرف سے حُرمت آئی تو لازم ہوتا کہ تمام نَر حرام ہوں ، اگر کہتا کہ مادہ کی طرف سے تو ضروری ہوتا کہ ہر ایک مادہ حرام ہو اور اگر کہتا جو پیٹ میں ہے وہ حرام ہے تو پھر سب ہی حرام ہو جاتے کیونکہ جو پیٹ میں رہتا ہے وہ نَر ہوتا ہے یا مادہ ۔ وہ جو تخصیصیں قائم کرتے تھے اور بعض کو حلال اوربعض کو حرام قرار دیتے تھے اس حُجّت نے ان کے اس دعوٰیٔ تحریم کو باطل کر دیا علاوہ بریں ان سے یہ دریافت کرنا کہ اللہ نے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا ان کے بچے ، یہ منکِرِ نبوّت مخالف کو اِقرارِ نبوّت پر مجبور کرتا تھا کیونکہ جب تک نبوّت کا واسطہ نہ ہو تو اللہ تعالٰی کی مرضی اور اس کا کسی چیز کو حرام فرمانا کیسے جانا جا سکتا ہے چنانچہ اگلے جملہ نے اس کو صاف کیا ہے ۔
(ف295)
جب یہ نہیں ہے اور نبوّت کا تو اقرار نہیں کرتے تو ان احکامِ حُرمت کو اللہ کی طرف نسبت کرنا کِذب و باطل و افترائے خالص ہے ۔