رب کو بہترین صورت میں دیکھا
حدیث نمبر :683
روایت ہے حضرت عبدالرحمن ابن عائش سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا ۱؎ رب نے پوچھا کہ فرشتے مقرّب کس چیز میں جھگڑتے ہیں ۲؎ میں نے عرض کیا مولٰی تو ہی جانے تب رب نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی۳؎ تو جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب میں نے جان لیا۴؎ اور یہ آیت تلاوت کی ہم یونہی ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے ملک دکھاتے ہیں تاکہ وہ یقین والوں میں سے ہوجائیں ۵؎ دارمی نے مرسلًا روایت کیااورترمذی کی روایت اسی کی مثل ہے انہی سے۔
۱؎ یعنی اس وقت میری اپنی صورت بہت اچھی تھی نہ کہ خدا کی جیسے کہا جاتا ہے کہ میں اچھے کپڑوں میں حاکم سے ملا،یعنی
شرح
ملاقات کے وقت میرے کپڑے اچھے تھے،ورنہ رب تعالٰی صورت سے پاک ہے۔خیال رہے کہ حضو ر انورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہم میں آنا بشری صورت میں ہے،اور رب سے ملنا نوری صورت میں۔انسان کا گھر کا لباس اورہوتا ہے اور کچہری کا اور،یہ غالبًا معراج کے واقعہ کا ذکر ہے۔بعض لوگوں نے خواب کا دیداربتایا ہے مگر پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔اس لیے دیدار الٰہی ثابت ہوا۔حق یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے ان ہی آنکھوں سے رب کا دیدارکیا۔رب کا فرمانا:”لَا تُدْرِکُہُ الۡاَبْصٰرُ”دیدار کی نفی نہیں کررہا بلکہ ادراک اور احاطے کی،اس حدیث کی تائید آیت کریمہ”مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی” فرمارہی ہے۔دیدار الٰہی کی پور بحث ہماری کتاب “شان حبیب الرحمن” میں دیکھو۔
۲؎ یعنی وہ کون سے اعمال ہیں جنہیں لے جانے اوربارگاہ الٰہی میں پیش کرنے میں فرشتے جھگڑتے ہیں وہ کہتا ہے میں لے جاؤں اور یہ کہتا ہے میں۔اس جملے کی اوربھی توجہیں ہیں مگر یہ قوی۔
۳؎ یعنی رب نے اپنی رحمت کے ہاتھ کو میری پشت پر رکھا اوراس کا فیضان میرے سینہ اور دل پرپہنچا۔
۴؎ مرقاۃ نے فرمایا کہ یہ حدیث حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسعت علم کی کھلی دلیل ہے،رب نے حضور علیہ السلام کو ساتوں آسمانوں بلکہ اوپر کی تمام چیزوں اورساتوں زمینوں اوران کے نیچے کی ذرہ ذرہ اور قطرے قطرے بلکہ مچھلی اور بیل جن پر زمین قائم ہے ان سب کا علم کُلّی عطا فرمایا۔شیخ نے فرمایا کہ اس سے مراد تمام کلی جزئی علوم کا عطا فرمانا ہے۔خیال رہے کہ اﷲ نے اپنے حبیب کو گذشتہ موجودہ اور تاقیامت ہونے والی ہر چیز کا علم دیا کیونکہ زمین پرلوگوں کے اعمال اور آسمان پر ان اعمال کے لئے فرشتوں کے یہ جھگڑے تاقیامت ہوتے رہیں گےجنہیں حضور علیہ السلام آج آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ا س حدیث کی تائید قرآن کی بہت سی آیات کررہی ہیں،جن آیات میں علم کی نفی ہے وہاں علم ذاتی مراد ہے۔اس کی تحقیق ہماری کتاب”جاءالحق”حصہ اول میں دیکھو۔
۵؎ یعنی جیسے اﷲ نے اپنے خلیل کو ملکوت دکھائے ایسے ہی مجھے۔معلوم ہوا کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف مسئلے ہی نہیں بتائے گئے تھے۔مسئلے تو مولویوں کو بھی بتادیئے جاتے ہیں بلکہ ساری خدائی دکھائی گئی تھی،ورنہ حضور علیہ السلام اس آیت سے دلیل نہ پکڑتے۔
حدیث نمبر :684
اور ابن عباس و معاذ ابن جبل سے اس میں یہ زیادتی بھی ہے رب نے فرمایا اے محمد کیا تم جانتے ہو کہ مقرب فرشتے کس چیز میں جھگڑتے ہیں ۱؎ میں نے عرض کیا ہاں کفارات ہیں ۲؎ اورکفارے نماز کے بعدمسجد میں ٹھہرنا اورجماعتوں کی طرف پیدل چلنا اورناگواری کی حالت میں پورا وضو کرنا ہیں۳؎ اورجو یہ کرے گا بھلائی سے جئے گا بھلائی سے مرے گا۴؎ اوراپنی خطاؤں سے ایسا ہوجائے گا جیسے اسے آج ماں نے جنا ۵؎ اورفرمایا اے محمد جب تم نماز پڑھ چکو تو کہاکرو ۶؎ الٰہی میں تجھ سے اچھے کام کرنا برائیاں چھوڑنا اورمسکینوں کی محبت مانگتا ہوں ۷؎ جب تو اپنے بندو ں کو فتنے میں ڈالنا چاہے تو مجھے اپنی طرف بغیر فتنے میں مبتلا ہوئے بلالے ۸؎ فرمایا اور درجات سلام کو پھیلاناکھاناکھلانا اوررات میں جب لوگ سوتے ہوں نماز پڑھنا ہیں ۹؎ اوراس حدیث کے الفاظ جیسے کہ مصابیح میں ہیں میں نے عبدالرحمن کی روایت سے نہ پائے مگر شرح سنّہ میں۔
شرح
۱؎ مقرب فرشتوں سے اعمال پیش کرنے والے فرشتے مراد ہیں یعنی مدبّراتِ امر فرشتے۔
۲؎ یعنی ہاں اب تیری عطا اورتیرے کرم سے سب کچھ جانتا ہوں۔معلوم ہوا کہ رب نے بتایا نہ تھا بلکہ سب کچھ دکھایا تھا۔
۳؎ یعنی ان تین نیکیوں کی وجہ سے اﷲ تعالٰی گناہ صغیرہ مٹا دیتا ہے۔ان کی شرحیں گزر چکیں۔
۴؎ اس کی تائید اس آیت سے ہے:”مَنْ عَمِلَ صٰلِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوْ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً “الایہ۔سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں رزق حلال،قناعت،رضاء بالقضاء،عبادت میں لذت اور اطاعتوں کی توفیق نصیب ہونا اچھی زندگی ہے۔اورایمان پرخاتمہ،مرتے وقت توبہ،فرشتوں کا جان نکالتے وقت جنت کی خوشخبری دینا بلکہ وہاں کے پھول لاکر سنگھانا،بعد وفات مسلمانوں کا اچھائی سے اسے یاد کرنا یہ بھلائی کی موت ہے۔اﷲ ہم سب کو نصیب کرے۔یہ رب کا وعدہ ہے جو حضور علیہ السلام کی معرفت ہمیں ملا،ٹل نہیں سکتا۔
۵؎ اس کے سارے گناہ صغیرہ معاف ہوجائیں گے۔گناہ کبیرہ اورحقوق مراد نہیں،اسی لئے “خَطِیْئَتِہٖ”فرمایا۔
۶؎ یعنی ہرنمازسے فارغ ہونے کے بعد نہ کہ نماز کے اندر یہ دعاء مانگ لیا کرو،جیسے حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا “اِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَے الْمَیِّتِ فَاخْلِصُوْا لَہٗ الدُّعَاءَ” جب تم نماز جنازہ پڑھ چکو تو میت کے لیے خلوص دل سے دعا کرو،دونوں عبادتیں یکساں ہیں۔
۷؎ اگرچہ مسکینوں کی محبت بھی اچھے کام میں داخل تھی مگر ان سب سے افضل کہ یہ ایمان کا ذریعہ ہے،اس لیے اس کا علیحدہ ذکر کیا۔مسکینوں سے مراد انبیاء،اولیاء اورنیک مسلمان ہیں کہ یہ سب حضرات دل کے مسکین اورمتواضع ہیں۔فقیرومسکین میں بڑا فرق ہے۔
۸؎ کیونکہ اس وقت زندگی سے موت افضل ہے۔خیال رہے کہ دنیوی مصائب سے گھبرا کر دعائے موت کرنا منع ہے مگر ایمانی آفتوں پر دعائے موت جائز ہے،لہذا یہ حدیث تمنائے موت کی ممانعت کی حدیثوں کے خلاف نہیں۔
۹؎ یعنی گزشتہ تین اعمال معافئ گناہ کا ذریعہ تھے اور یہ اعمال ترقئ درجات کا وسیلہ۔اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز اوربھوکوں کا پیٹ بھرنا،ہر ایک کو سلام کرنا بہت بہترین اعمال ہیں۔