عصرِ حاضر میں عدم برداشت کا رجحان اور تعلیمات نبوی ﷺ

ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق

آج ہم جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں، بادی النظر میں اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتِ حال، حیرت انگیز سائنسی ایجادات، تیز رفتار ترقی اور چکا چوند، نگاہوں کو خیرہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن بہ نظر غائر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظرف اور زماں کی ہزار تبدیلیوں کے باوجود ’’انسانیت‘‘ کو درپیش مسائل میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا نے اگرچہ جسم وجاں کی خواہشات و مطالبات کی تکمیل کا سارا سامان مہیا کرلیا ہے، یہاں تک کہ زمین و آسمان کو مسخر کرلیا ہے، چاند پر قدم رکھ دیا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال دی ہیں۔ لیکن انسان اپنے اندر کی بہیمیت پر قابو نہیں پاسکا ہے۔ ہمارے سماجی رویّے ہمارے لیے وبالِ جان بن چکے ہیں۔ رواداری، اخلاص، تحمل، برداشت، صبر، استقامت، مساوات، عفو و درگزر، عدل اور انصاف جیسی صفات جو معاشروں کی فلاح اور خیر کی ضامن ہیں، عنقا ہوتی جارہی ہیں۔ اقوام ہوں یا افراد، ہر دو کے نزدیک ’’طاقت‘‘ ہی اصل الاصول ہے۔ کمزوروں کے خلاف طاقت کی وہی زبان استعمال کی جارہی ہے جو کبھی جاہلیت کا طرہ امتیاز تھی۔ واضح رہے کہ یہاں جہل بمقابلہ علم نہیں، بمقابلہ حلم ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی معاشروں میں عدم برداشت کا رجحان روزافزوں ہے۔ عدم برداشت کا یہ رجحان ہمارے سماجی مسائل کا ایک بنیادی سبب ہے۔ اسی سبب طبقاتی کشمکش، نسلی اور قومی امتیازات، انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسان عہدِ جاہلیت کی طرف لوٹ رہا ہے، یا ہم ایک جدید عہدِ جاہلیت سے گزر رہے ہیں۔

معاشرے افراد سے مل کر ہی بنتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرے میں افراد کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنی توجہ کا مرکز فرد ہی کو بنایا اور تزکیہ نفوس پر خصوصی توجہ دی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کے ساتھ بے پناہ و بے مثال قوتِ برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف جانی دشمنوں کو معاف فرمادیا بلکہ اُن کے لیے دعائے ہدایت بھی فرمائی۔ بددعا کے موقع پربھی دعا دے کر تحمل و برداشت کی اعلیٰ ترین مثال پیش فرمائی۔

اصلاحِ احوال کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں نے عرب کے معاشرے میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ جہاں کبھی پانی پینے پلانے پر، تو کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پر تلواریں نکل آتی تھیں اور خون کی ندیاں بہہ جاتی تھیں، انھیں ضبطِ نفس کا خوگر بنادیا، جس کی جانب قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشاریہ کیا ’’واذکروا اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔‘‘ (آل عمران: 103)۔

برداشت جسے عربی میں تحمل کہا جاتا ہے، اس کے لغوی معنی بوجھ اٹھانے کے ہیں۔ یہ طبیعت کی وہ صفت ہے جس سے انسان میں قوت پیدا ہوتی ہے، جس کے سبب وہ جوش، غضب، اشتعال اور جذبۂ انتقام کے باوجود، اور انتقام پر قدرت رکھتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔ جب کہ عدم برداشت سے مراد وہ منفی رویہ ہے کہ جب کسی کی رائے، سوچ، رویّے یا نقطہ نظر سے آپ متفق نہ ہوں اور فکرو نظر کے اس اختلاف کو برداشت نہ کرپائیں اور نامناسب ردعمل کا اظہار کریں۔ جب کہ اسلام نے اختلافِ رائے کی بھی حدود متعین کی ہیں۔

معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے کئی پہلو ہیں، عدم برداشت معاشرتی سطح پر بھی ہے اور مذہبی و سیاسی سطح پر بھی۔ ہم بحیثیتِ مجموعی اپنے سماجی رویوں میں انتہا پسندی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔اگرچہ کسی واقعے سے فوری طور پر متاثر ہونا اور ردعمل کے طور پر مشتعل ہوجانا، اور بدلہ لینے کے لیے جوابی اقدام کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ مگر اسلام نے ہر معاملے میں اعتدال و میانہ روی سے کام لینے کا درس دیا ہے۔ فوری طور پر کسی بھی واقعے سے متاثر ہوکر ردعمل کے لیے متحرک ہوجانا قوتِ برداشت میں کمی اور ضبط و تحمل کے معاملے میں کمزوری کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات یہ ہیں کہ اگر کسی سے کوئی تکلیف پہنچے تو صرف بقدرِ تکلیف بدلہ لینے کی اجازت ہے، لیکن اگر کوئی شخص برداشت کرے اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے: وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ۔ ولئن صبرتم لھو خیر الصابرین۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر مکارم اخلاق کی طرح برداشت و تحمل کے فروغ اور عدم برداشت کے سدباب کے لیے عملی اقدامات بھی فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ برداشت اور صبر و تحمل مثالی تھا۔ دعوتِ اسلام کے آغاز ہی سے اہلِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی۔ شاعر، مجنون، دیوانہ کہا، گالیاں دیں، راستے میں کانٹے بچھائے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ مخالفتِ قریش کا پہلا دور (یعنی آغازِ وحی تا ہجرتِ مدینہ) قریش کی بھرپور سیادت و قیادت کا زمانہ تھا۔ اس تیرہ سالہ مکی دور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عام مسلمانوں پر ہر قسم کے مظالم ڈھائے جاتے رہے۔ لیکن قریش کی تمام تر مخالفانہ و معاندانہ کوششوں کے باوجود آپؐ نے صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا اور اہلِ ایمان کو یہی تعلیم دی، جس کے نتیجے میں دعوتِ نبوی کے فروغ کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا، یہاں تک کہ دعوتِ نبوی کی شہرت مکہ مکرمہ سے نکل کر آس پاس کے علاقوں تک پہنچ گئی۔

دعوتِ دین کے اس فروغ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صبرو تحمل، برداشت اور استقامت فی الدین نے اہم کردار ادا کیا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا، بجز اس کے کہ خدائی حرمت کو پامال کیا گیا ہو، پس اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سختی سے مواخذہ فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔

سیرتِ طیبہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عدم برداشت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے یہ ایک اہم اصول ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہم سیرتِ طیبہ کی روشنی میں عفو و درگزر سے کام لیں۔ عفو و درگزر سے کام لینا کمزوری یا بزدلی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ :

والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: 134)۔

(اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔)

عبداللہ بن ابی مدینہ طیبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ ولیم میور تسلیم کرتا ہے کہ اس کی مسلسل دشمنی کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ہمیشہ تحمل اور بردباری سے پیش آئے۔

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں یعنی عبادالرحمن کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں اُن میں سے ایک بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ وہ تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہیں: ’’اور اللہ کے بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پر عجز و انکسار سے چلتے ہیں، اور جب کوئی جاہل ان سے مخاطب ہوتا ہے تو یوں کہتے ہیں: سلامتی ہو‘‘ (الفرقان:36) ’’اور جب وہ لغو (بات یا رویّے سے) گزرتے ہیں تو باعزت طریقے سے گزر جاتے ہیں‘‘۔(الفرقان: 72)۔

اور ایک مقام پر ان کی اس صفت کو بایں الفاظ بیان کیا گیا: ’’اور جب وہ بے ہودہ بات سنتے ہیں تو وہاں سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ حلم و بردباری کی تعلیم دی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ اس شخص نے پھر اپنی وہی درخواست کئی بار دہرائی کہ مجھے اور وصیت فرمائیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو‘‘۔مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ سے قوت ِ برداشت کی نبوی تعلیم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں برداشت کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ درج ذیل حدیثِ مبارکہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے‘‘۔ (صحیح مسلم)۔

سیرتِ طیبہ سے ہمیں عفو و درگزر اور برداشت کی بے شمار روشن مثالیں ملتی ہیں جنہیں مشعلِ راہ بنالیا جائے تو معاشرے سے عدم برداشت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس نے کسی مسلمان پر اسلحہ تانا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

اس کے باوجود دوسروں پر اسلحہ سے حملہ آور ہونا عدم برداشت کی ایک صورت ہے۔ غور کیا جائے تو اسلحہ تاننے ہی کی ممانعت نہیں کی گئی ہے، بلکہ طاقت و دولت، شان و شوکت اور اختیارات کے بے جا اظہار کی بھی ممانعت ہے، جو کسی کے لیے باعثِ آزار ہو۔

افرادِ معاشرہ میں بردباری، تحمل اور حلم و برداشت کے فروغ کے حوالے سے درج ذیل حدیثِ مبارکہ بھی اہمیت کی حامل ہے: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔

مذہب جو کہ انسان کا اہم ترین معاملہ ہے، جہاں جذبات پر قابو مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے واضح حکم دیا اور لااکراہ فی الدین فرما کر کسی اعتبار سے مذہبی جبر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے دی۔

اسلام نے جن عبادات کو فرض قرار دیا ہے مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ… یہ تمام عبادات بھی ضبطِ نفس اور برداشت کی متقاضی ہیں۔ یہ عبادات انسان کے اندر برداشت کا مادہ پیداکرتی ہیں۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان کے سدِباب کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے تعلیماتِ نبویؐ کو عام کیا جائے۔ والدین اپنے گھروں میں، اساتذہ اپنے دروس میں، اور علماء اپنے خطبات میں ان تعلیمات کی اہمیت کو اجاگر کریں، اور ہم دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔