وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱)

اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوںمیں نہ ہوا

قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)

فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا (ف۱۶) بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا(ف۱۷)

(ف16)

مسئلہ : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امر وُجوب کے لئے ہوتا ہے اور سجدہ نہ کرنے کا سبب دریافت فرمانا تَوبیخ کے لئے ہے اور اس لئے کہ شیطان کی مُعانَدت اور اس کاکُفر و کِبر اور اپنی اصل پر مُفتخِر ہونا اور حضرت آدم علیہ السلام کے اصل کی تحقیر کرنا ظاہر ہو جائے ۔

(ف17)

اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ آ گ مِٹی سے افضل و اعلٰی ہے تو جس کی اصل آ گ ہوگی وہ اس سے افضل ہوگا , جس کی اصل مِٹی ہو اور اس خبیث کا یہ خیال غلط وباطل ہے کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولٰی فضیلت دے ، فضیلت کا مدار اصل و جوہر پر نہیں بلکہ مالک کی اِطاعت و فرمانبرداری پر ہے اور آ گ کا مِٹی سے افضل ہونا یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ آ گ میں طیش و تیزی اور تَرَفُّع ہے ۔ یہ سبب اِستِکبار کا ہوتا ہے اور مٹی سے وقار ، حِلۡم و حیا و صبر حاصل ہوتے ہیں ، مِٹی سے مُلک آباد ہوتے ہیں آ گ سے ہلاک ، مِٹی امانت دار ہے جو چیز اس میں رکھی جائے اس کو محفوظ رکھے اور بڑھائے ۔ آ گ فنا کر دیتی ہے باوجود اس کے لطف یہ ہے کہ مِٹی آگ کو بجھا دیتی ہے اور آ گ مِٹی کو فنا نہیں کر سکتی علاوہ بَریں حماقَت و شَقاوَت اِبلیس کی یہ کہ اس نے نَص کے موجود ہوتے ہوئے اس کے مُقابِل قیاس کیا اور جو قیاس کہ نص کے خلاف ہو وہ ضرور مردود ۔

قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُ جْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳)

فرمایا تو یہاں سے اُتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل (ف۱۸) تو ہے ذلت والوں میں (ف۱۹)

(ف18)

جنّت سے کہ یہ جگہ اطاعت و تواضُع والوں کی ہے منکِر و سرکش کی نہیں ۔

(ف19)

کہ انسان تیری مَذمَّت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تکبّر والے کا انجام ہے ۔

قَالَ اَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۴)

بولا مجھے فرصت دے اس دن تک کہ لوگ اٹھائے جائیں

قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(۱۵)

فرمایا تجھے مہلت ہے (ف۲۰)

(ف20)

اور مُدَّت اس مہلت کی سورۂ حِجر میں بیان فرمائی گئی ۔ ” اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ” اور یہ وقت نَفخَۂ اُولٰی کا ہے جب سب لوگ مر جائیں گے , شیطان نے مُردوں کے زندہ ہونے کے وقت تک کی مہلت چاہی تھی اور اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ موت کی سختی سے بچ جائے یہ قبول نہ ہوا اور نَفخَۂ اولٰی تک کی مُہلت دی گئی ۔

قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۱۶)

بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا(ف۲۱)

(ف21)

کہ بنی آدم کے دل میں وسوسے ڈالوں اور انہیں باطِل کی طرف مائِل کروں گناہوں کی رغبت دلاؤں تیری اِطاعت اور عبادت سے روکوں اور گمراہی میں ڈالوں ۔

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىٕلِهِمْؕ-وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ(۱۷)

پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا ان کے آگے اورپیچھے اور داہنے اور بائیں سے (ف۲۲) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا(ف۲۳)

(ف22)

یعنی چاروں طرف سے انہیں گھیر کر راہِ راست سے روکوں گا ۔

(ف23)

چونکہ شیطان بنی آدم کو گمراہ کرنے اور مبتلائے شہوات و قَبائِح کرنے میں اپنی انتہائی سَعی خرچ کرنے کا عَزم کر چکا تھا اس لئے اسے گمان تھا کہ وہ بنی آدم کو بِہکا لے گا ۔ انہیں فریب دے کر خداوندِ عالَم کی نعمتوں کے شکر اور اس کی طاعت و فرمانبرداری سے روک دے گا ۔

قَالَ اخْرُ جْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًاؕ-لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ(۱۸)

فرمایا یہاں سے نکل جا رَدّ کیا گیا راندہ (دھتکارا)ہوا ضرور جو ان میں سے تیرے کہے پر چلا میں تم سب سے جہنم بھردوں گا(ف۲۴)

(ف24)

تجھ کو بھی اور تیری ذُرِّیّت کو بھی اور تیری اطاعت کرنے والے آدمیوں کو بھی ، سب کو جہنّم میں داخل کیا جائے گا ، شیطان کو جنّت سے نکال دینے کے بعد حضرت آدم کو خِطاب فرمایا جو آگے آتا ہے ۔

وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۹)

اور اے آدم تو اور تیرا جوڑا (ف۲۵) جنت میں رہو تو اس میں سے جہاں چاہو کھاؤ اور اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوگے

(ف25)

یعنی حضرت حوا ۔

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(۲۰)

پھر شیطان نے ان کے جی(دل) میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شرم کی چیزیں (ف۲۶) جو ان سے چھپی تھیں (ف۲۷) اور بولا تمہیں تمہارے رب نے اس پیڑ سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فرشتے ہوجاؤ یا ہمیشہ جینے والے (ف۲۸)

(ف26)

یعنی ایسا وسوسہ ڈالا کہ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بَرہنہ ہو جائیں ۔ اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ وہ جسم جس کو عورت کہتے ہیں اس کو چھپانا ضروری اور کھولنا منع ہے اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اس کا کھولنا ہمیشہ سے عقل کے نزدیک مذموم اور طبیعتوں کو ناگوار رہا ہے ۔

(ف27)

اس سے معلوم ہوا کہ ان دونوں صاحبوں نے اب تک ایک دوسرے کا سِتر نہ دیکھا تھا ۔

(ف28)

کہ جنّت میں رہو اور کبھی نہ مرو ۔

وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ(۲۱)

اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں

فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)

تو اُتار لایا انہیں فریب سے (ف۲۹) پھر جب اُنہوں نے وہ پیڑ چکھا ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں (ف۳۰) اور اپنے بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے اور اُنہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے

(ف29)

معنٰی یہ ہیں کہ اِبلیس ملعون نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹی قسم کھانے والا اِبلیس ہی ہے حضر ت آدم علیہ السلام کو گمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ کی قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے اس لئے آپ نے اس کی بات کا اعتبار کیا ۔

(ف30)

اور جنّتی لباس جسم سے جدا ہو گئے ۔ اور ان میں ایک دوسرے سے اپنا بدن چُھپا نہ سکا اس وقت تک ا ن صاحبوں میں سے کسی نے خود بھی اپنا سِتر نہ دیکھا تھا اور نہ اس وقت تک انہیں اس کی حاجت پیش آئی تھی ۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)

دونوں نے عرض کی اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے

قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۲۴)

فرمایا اُترو (ف۳۱) تم میں ایک دوسرے کادشمن اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے

(ف31)

اے آدم و حوّا مع اپنی ذُرِّیّت کے جو تم میں ہے ۔

قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۠(۲۵)

فرمایا اسی میں جیؤ گے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے اٹھائے جاؤ گے(ف۳۲)

(ف32)

روزِ قیامت حساب کے لئے ۔