أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌ ۚ اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰهِ ۙ يُوۡرِثُهَا مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بیشک ساری زمین صرف اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور اچھا انجام متقین کے لیے ہے

تفسیر:

128 ۔۔ تا۔۔ 129:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بیشک ساری زمین صرف اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور اچھا انجام متقین کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا (اے موسیٰ ! ) آپ کے ہمارے پاس آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیتیں ہپنچائی گئی تھیں اور آپ کے ہمارے پاس آنے کے بعد بھی (موسی) نے کہا عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں ان کا جانشین بنا دے گا، پھر وہ تمہارے اعمال کو ظاہر فرمائے گا “

اللہ پر ایمان کامل کی وجہ سے مصائب کا آسان ہوجانا :

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دو چیزوں کا حکم دیا اور دو چیزوں کی بشارت دی، ایک یہ حکم دیا کہ اللہ سے مدد طلب کرو اور دوسرا یہ حکم دیا کہ مصائب پر صبر کرو، اور اللہ تعالیٰ سے استمداد اور استعانت کے حکم کو پہلے بیان فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہوجائے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا اور اس کو چلانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے اور ہم اس کے بندے اور مملوک ہیں اور مالک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی مملوک میں جس طرح چاہے تصرف کرے تو اس کا دل اللہ کی معرفت کے نور سے روشن ہوجاتا ہے اور وہ اپنے مالک کی محبت میں مستغرق ہوجاتا ہے، پھر اس پر جو مصیبت اور تکلیف وارد ہو وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو وہ خوشی اور محبت سے ان مصائب کو گلے لگا لیتا ہے اور ان پر کوئی شکوہ اور شکایت نہیں کرتا، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نمرود کی جلائی ہوئی آگ میں بےخطر کود پڑے، حضرت اسماعیل نے راضی بہ رضا ہو کر چھری تلے اپنی گردن رکھ دی، حضرت ایوب (علیہ السلام) نے صبر و استقامت سے تمام بیماریوں کو برداشت کیا۔ سو جس شخص کا اللہ پر یقین محکم ہو اس کے لیے مصائب اور مشکلات پر صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ 

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنو اسرائیل کو ایک یہ بشارت دی کہ اللہ ان کے دشمن کو ہلاک کردے گا اور اس کی جگہ ان کو اس زمین کا وارث کردے گا۔ کیونکہ زمین کا مالک اللہ ہے، وہ جس کو چاہے اس زمین کا وارث بنا دیتا ہے، اور دوسری بشارت یہ دی کہ اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو آخرت میں بھی تمہارا اچھا انجام ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پر ایمان اور تقوی قائم رکھنے کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں کامیابی اور سرفرازی حاصل ہوجاتی ہے۔

کسی بات کو سمجھنے کے لیے سوال کرنے کا جواز :

بنو اسرائیل نے جب فرعون کی وعید اور اس کی دھمکیوں کو سنا تو وہ سخت خوفزدہ ہوئے اور گھبرا گئے اور انہوں کہا : ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی اذیت دی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے فرعون لعین نے بنو اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ وہ ان سے جزیہ لیتا تھا۔ اور ان سے سخت مشکل کام لیتا تھا، اور ان کو سہولت اور آرام سے منع کرتا تھا، ان کے بیٹوں کو قتل کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا، جب اللہ تعالیٰ نے حجرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تو ان کو یہ واثق امید ہوگئی کہ اب ان کی مشکلات کے دن ختم ہوگئے اور ان کو اب فرعون کے ظلم و ستم سے نجات مل جائے گی، لیکن جب انہوں نے فرعون کو پھر دھمکیاں دیتے ہوئے سنا، تو ان کی امید پھر ڈوب گئی اور انہوں نے رنج اور مایوسی سے یہ کہا کہ ہمیں آپ کی آمد سے پہلے بھی اذیت دی گئی تھی اور آپ کے آنے کے بعد بھی ہم ظلم و ستم کے ساتئے میں ہیں۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بنو اسرائیل کے اس کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کو مکروہ جانا اور یہ کفر ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے یہ بشارت دی کہ اب تمہاری مصیبتوں کے دن گزر گئے تو انہوں نے اس سے یہ سمجھا کہ ان کی مصیبتیں اسی وقت ختم ہوجائیں گی اور جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کے مصائب تو ان پر اسی طرح چھائے ہوئے ہیں تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس خوشخبری کی کیفیت جاننے کے لیے سوال کیا، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ وضاحت کی کہ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان کے مصائب اسی وقت ختم ہوجائیں گے، بلکہ ان کی نجات کا جو وقت اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے ان کی نجات اسی وقت ہوگئی۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے ا اور تمہیں زمین میں ان کا جانشین بنا دے گا، پھر وہ تمہارے اعمال کو ظاہر فرمائے گا۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اگر استاد یا شیخ کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دریافت حال کے لیے سوال کیا جاسکتا ہے، اور اس کی نظیر یہ حدیث ہے : 

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض) جب کوئی حدیث سنتیں جس کا مطلب انہیں سمجھ میں نہ آتا تو وہ دوبارہ آپ سے رجوع کرتیں حتی کہ اس کو سمجھ لیتیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کا حساب لیا گیا اس کو عذاب دیا گیا، حضرت عائشہ نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ” فاما من اوتی کتبہ بیمینہ۔ فسوف یحاسب حسابا یسیرا : تو جس شخص کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا سو اس سے بہت آسان حساب لیا جائے گا ” (الانشقاق :8 ۔ 7) ۔ آپ نے فرمایا : یہ تو اعمال نامہ کو پیش کرنے کے متعلق ہے۔ لیکن جس سے حساب میں مناقشہ کیا جائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4939، 6536، 6537، 103)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 128