چلا آیا کلیجا تھامے تجھ سا فتنہ گر دیکھا
چلا آیا کلیجا تھامے تجھ سا فتنہ گر دیکھا
کلام : استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی
❤️
چلا آیا کلیجا تھامے تجھ سا فتنہ گر دیکھا
دعا میں ہم سے مظلوموں کی ظالم کچھ اَثر دیکھا
❤️
خفا کیوں ہو گئے کس واسطے آنکھیں چُراتے ہو
خطا کیا ہو گئی تم کو اگر آدھی نظر دیکھا
❤️
ستم یہ دشمنوں پر ہوں اُٹھائیں وہ تو ہم جانیں
ذرا اُن کا بھی دل دیکھو ہمارا تو جگر دیکھا
❤️
عجب سکتے کی صورت ہے غضب حیرت کا عالم ہے
خبر کیا آئنہ نے آج کیا وقت سحر دیکھا
❤️
لیے تو جاؤں اُس کی بزم میں اے دل مگر ڈر ہے
میں رو بیٹھوں گا تجھ کو اُس نے جب ہنس کر اِدھر دیکھا
❤️
گرے پڑتے ہیں آنسو دل ہوا جاتا ہے بے قابو
خدا سمجھے پھر اُن کم بخت آنکھوں نے اِدھر دیکھا
❤️
یوہیں کیف تجلی ہم اُٹھا کر دل کو سمجھا لیں
ہم اس کو دیکھ لیں جس نے تجھے آدھی نظر دیکھا
❤️
دلِ مشتاق کس کی یاد ہے کس کا تصور ہے
جو تو نے اِس قدر حسرت سے رُخسارِ قمر دیکھا
❤️
بیانِ مرگِ عاشق سن کے وہ دشمن سے کہتے ہیں
بلانے کو مرے اُس نے اُڑائی کیا خبر دیکھا
❤️
سنا تھا مرگِ عاشق کھینچ لاتی ہے جنازہ پر
نہ آیا نعش پر بھی وہ ستم گر ہم نے مر دیکھا
❤️
کسی رہرو پر آ جانا طبیعت کا قیامت ہے
نہ اُس کے نام ہی سے واقفیت ہے نہ گھر دیکھا
❤️
وہ جلوے اُس نے دیکھے ہیں نہ دیکھے جو ملائک نے
کہاں پہنچا کسے دیکھا حسنؔ اوجِ بشر دیکھا
❤️