۲ ۔ توحید و صفات الہی

(۱) کلمہ توحید کی فضیلت

۵۔ قال الإمام علی رضا حدثنی أبی موسی الکاظم عن أبیہ جعفر الصادق عن أبیہ محمد الباقر عن أبیہ زین العابدین عن أبیہ الحسین عن أبیہ علی بن أبی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم قال : حدثنی حبیبی و قرۃ عینی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال : حدثنی جبرئیل قال : سمعت رب العزۃ یقول : لا إلہ إلا اللہ حِصْنِی، فَمَنْ قَالَ دَخَلَ حِصْنِی، وَ مَنْ دَخَلَ حِصْنِی أمِن مِن عَذابِی ۔

سیدنا امام علی رضا رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ اما م موسی کاظم وہ امام جعفر صادق و ہ امام محمد باقر وہ امام زین العابدین وہ امام حسین وہ علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ میرے پیارے میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے حدیث بیان فرمائی کہ ان سے جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی :کہ میں نے اللہ عزوجل کو فرماتے سنا ،کہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے ۔تو جس نے اسے کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوا میرے عذاب سے امان میں رہا ۔

]۲[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

امام ابن حجر مکی نے اس حدیث کی روایت و سند کا پس منظر اس طرح بیان فرمایا کہ جب امام علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیشاپور میں تشریف لائے چہرئہ مبارک کے سامنے ایک پردہ تھا، حافظان حدیث امام ابو زرعہ رازی ۔ امام محمد بن اسلم طوسی اور انکے ساتھ بیشمار طالبان علم حدیث حاضر خدمت انور ہوئے اور گڑ گڑا کر عرض کی: کہ اپنا جمال مبارک ہمیں دکھائیے اور اپنے آبائے کرام سے ایک حدیث ہمارے سامنے بیان فرمائیے ۔ امام نے سواری روکی اورغلاموں کو حکم فرمایا کہ پردہ ہٹالیں ۔ خلق کی آنکھیں جمال مبارک سے ٹھنڈی ہوئیں ۔ دو گیسو شانے پر لٹک رہے تھے ۔ پر دہ ہٹتے ہی خلق کی یہ حالت ہوئی کہ کوئی چلاتا ہے ۔ کوئی خاک پر لوٹتا ہے ۔ کوئی روتا ہے ۔ کوئی سواری ٔمقد س کا سم چومتا ہے ۔ اتنے میں علماء نے آواز دی خاموش۔

سب لوگ خاموش ہو رہے ۔ دونوں ا مام مذکور نے حضور سے کوئی حدیث روایت کرنے کو عرض کی تو یہ حدیث بیان فرمائی ۔ یہ حدیث بیان فرماکر حضور رواں ہوئے اور پردہ چھوڑ دیا گیا ۔ دواتوں والے جو ارشاد مبارک لکھ رہے تھے شمار کئے گئے تو بیس ہزار سے زائد تھے ۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ۔

لو قرأت ہذا الاسناد علی مجنون لبرأ من جنتہ ۔ یہ مبارک سند اگر مجنون پر پڑھو تو ضرور اسے جنون سے شفا ہو ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اصحاب کہف کے نام تحصیل نفع و دفع ضرر اور آگ بجھانے کے واسطے ہیں ۔ ایک پارچہ میں لکھ کر بیچ آگ میں ڈالدیں اور بچہ روتا ہو تو لکھ کر گہوارے میں ا سکے سر کے نیچے رکھ دیں ۔ اور کھیتی کی حفاظت کیلئے کاغذ پر لکھ کر بیچ کھیت میں ایک لکڑ ی گاڑ کر اس پر باندھیں ۔اور رگیں تپکنے اور تجاری اور درد سر اور حصول تونگر ی و وجاہت اور سلاطین کے پاس جانے کیلئے داہنی ران پر باندھیں ۔ اور دشواریٔ ولادت کیلئے عورت کی بائیں ران پر نیز حفاظت مال اور دریا کی سواری اورقتل سے نجات کیلئے ۔

اقول : فی الواقع جب اسمائے اصحاب کہف قدست اسرارہم میں وہ برکات ہیں حالانکہ وہ اولیائے عیسویین میں سے ہیں ۔ تو اولیائے محمدیین صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیہ وعلیہم اجمعین کا کیا کہنا ۔ ا نکے اسمائے کرام کی برکت کیا شمار میں آسکے ۔ اے شخص تو نہیں جانتا کہ نام کیا ہے ۔ مسمی کے انحائے وجودسے ایک نحو ہے ۔ امام فخر الدین رازی وغیرہ علماء نے فرمایا : کہ وجود شئی کی چار صورتیں ہیں ۔ وجود اعیان میں ۔ علم میں ۔ تلفظ میں ۔ کتابت میں ۔ تو ان دوشق اخیر میں وجود اسم ہی کو وجود مسمی قرار دیا ہے، بلکہ کتب عقائد میں لکھتے ہیں ۔ الاسم عین المسمی ۔ نام عین مسمی ہے ۔ امام رازی نے فرمایا ۔المشہور عن اصحابنا ان الاسم ہو المسمی ۔ مقصود اتنا ہے کہ نام کا مسمی سے اختصاص کپڑوں کے اختصاص سے زائد ہے اور نام کی مسمی پر دلالت تراشۂ ناخن کی دلالت سے افزوں ہے ۔ توخالی اسماء ہی ایک اعلی ذریعۂ تبرک و توسل ہوتے نہ کہ اسامی سلاسل علیہ کہ اسناد اتصال بمحبوب ذوالجلال و بحضرت عزت و جلال ہیں ۔ جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ اور اللہ و محبوب و اولیا ء کے سلسلۂ کرام و کرامت میں انسلاک کی سند، تو شجرئہ طیبہ سے بڑھ کر اور کیا ذریعۂ توسل چاہئے ۔ فتاوی رضویہ ۴/۱۳۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۔ الصواعق المحرقہ لابن حجر المکی ، ٭ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ، ۳/۹۲۱