أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَوٰعَدۡنَا مُوۡسٰى ثَلٰثِيۡنَ لَيۡلَةً وَّاَتۡمَمۡنٰهَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِيۡقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرۡبَعِيۡنَ لَيۡلَةً ‌ ۚ وَقَالَ مُوۡسٰى لِاَخِيۡهِ هٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِىۡ فِىۡ قَوۡمِىۡ وَاَصۡلِحۡ وَلَا تَتَّبِعۡ سَبِيۡلَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر اس میں دس راتوں کا اضافہ کیا سو آپ کے رب کی مقررہ مدت مکمل چالیس راتیں ہوگئی، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک ٹھیک کام کرنا اور مفسدوں کے طریقہ پر کاربند نہ ہونا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر اس میں دس راتوں کا اضافہ کیا سو آپ کے رب کی مقررہ مدت مکمل چالیس راتیں ہوگئی، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک ٹھیک کام کرنا اور مفسدوں کے طریقہ پر کاربند نہ ہونا “

ربط آیات، مناسبت اور موضوع : 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا تھا مثلاً ان کو فرعون کی غلامی اور اس کے بےگار لینے سے نجات دی اور ان کو مستقل امت بنایا اور ان کے دین کو ثابت کرنے کے لیے اتنے کثیر معجزات ظاہر فرمائے جو اس سے پہلے کسی امت کے لیے ظاہر نہیں فرمائے تھے اور اس آیت میں ان پر تورات کے نزول کا بیان ہے جس میں ان کی زندگی کے لیے دستور العمل تھا، اور اللہ تعالیٰ کے احکام تھے جن پر انہوں نے عمل کرنا تھا۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر میں بنو اسرائیل سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے دشمن کو ہلاک کردے گا تو وہ ان کے پاس اللہ کی کتاب لائیں گے جس میں یہ بیان ہوگا کہ ان پر کیا کام ان کے لیے ممنوع ہیں۔ اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ اور نائب بنانے کا ذکر ہے۔

حضرت موسیٰ کے لیے پہلے تیس راتیں اور پھر دس راتیں مزید مقرر کرنے کی حکمت : 

امام عبدالرحمن بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم الرازی المتوفی 327 ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنو اسرائیل سے فرمایا : حضرت ہارون کی اطاعت کرنا کیونکہ میں نے ان کو تم پر اپنا جانشین (خلیفہ) مقرر کردیا ہے، میں اپنے رب کے پاس جا رہا ہوں، اور ان کو بتایا کہ میں تیس دن کے بعد واپس آجاؤں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تیس دن روزے رکھے انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ اپنے رب سے ہم کلام ہوں اور ان کے منہ سے بو آرہی ہو (روزہ رکھنے سے منہ سے ایک خاص قسم کی بو آتی ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین سے گھاس اٹھا کر اس سے اپنے منہ کو صاف کیا اور گھاس کو چبایا۔ جب اللہ تعالیٰ کے پاس گئے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا تم نے روزہ کیوں افطار کیا (گھاس کیوں چبائی) حالانکہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا خوب علم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب ! میں نے اس چیز کو ناپسند کیا کہ میں تجھ سے اس حال میں کلام کروں کہ میرے منہ سے بو آرہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ کیا تم نہیں جانتے کہ روزہ دار کے منہ کے بو مجھے مشک سے زیادہ پسند ہے۔ اب واپس جاؤ اور دس روزے مزید رکھو پھر میرے پاس آنا، سو حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کیا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تین راتوں سے مراد ذوالقعدہ کا مہینہ ہے اور بعد میں جو دس دن زیادہ کیے، ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم ج 5، ص 1556، مطبوعہ مکہ المکرمہ، جامع البیان جز 9، ص 247)

بعض علماء نے اس روایت سے اختلاف کیا ہے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میں مسواک کی بہت فضیلت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیا (صحیح مسلم، الطہارۃ، 42 (252) 578) اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دس چیزیں فطرت (سنت) ہیں اور ان دس چیزوں میں آپ نے مسواک کا ذکر فرمایا۔ (صحیح مسلم، الطہارۃ 56، (261) 593) اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسواک سے منہ کی پاکیزگی ہوتی ہے اور رب راضی ہوتا ہے۔ ( صحیح البخاری : 1933) اس لیے مسواک کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دوبارہ روزے رکھنے کا حکم دینا بہ ظاہر محل نظر ہے۔

اب پھر یہ سوال ہوگا کہ تیس راتوں کے بعد الگ سے دس دنوں کو ذکر کرنے کی کیا توجیہ ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ ابتداء چالیس راتوں کا ذکر فرماتا، پہلے تیس راتوں کے وعدہ کا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد دس راتوں کا اضافہ فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ چالیس راتوں کی مدت مکمل ہوگئی۔ اس کی حسب ذیل توجیہات ہیں : 

1 ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تیس راتوں اور دنوں میں روزے رکھنے کا حکم دیا اور ان ایام میں عبادت کرنے کا حکم دیا، پھر باقی دس دنوں میں تورات نازل کی گئی اور ان ہی ایام میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہوا۔ 

2 ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تیس راتیں پوری کرکے پہاڑ طور پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی کہ سامری نے ان کی قوم کو شرک میں مبتلا کردیا ہے، تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس میعاد کو پورا کرنے سے پہلے اپنی قوم کی طرف واپس گئے پھر دوبارہ واپس آئے، اور دس دن کے روزے رکھے۔

3 ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی تیس دن کی مدت صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ہو اور بعد کے دس دن کی مدت ان ستر منتخب اسرائیلیوں کے لیے ہو جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑ طور پر گئے تھے۔ اس کا تفصیلی ذکر الاعراف : 155 میں آئے گا۔ 

میقات کا معنی اور کسی کام کی مدت مقرر کرنے کی اصل : 

اس آیت میں فرمایا ہے حضرت موسیٰ کے رب کا میقات کا چالیس راتوں میں مکمل ہوگیا۔ علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے جس وعدہ کو پورا کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر کیا گیا ہو اس کو میقات کہتے ہیں۔ اس طرح کسی کام کے وقت کے لیے جو جگہ متعین کی گئی ہو اس کو بھی میقات کہتے ہیں۔ جیسے حج کے مواقیت ہیں۔ (المفردات، ج 2، ص 686، طبع مکہ مکرمہ) 

ہمارے علماء نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ کسی وعدہ کی تکمیل کے لیے مدت مقرر کرنا قدیم طریقہ ہے۔ اسی طرح کسی کام کے لیے مدت مقرر کرنا بھی قدیم طریقہ اور اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو بنانے کے لیے چھ دنوں کی مدت مقرر فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” ولقد خلقنا السموات والارض وما بینہما فی ستۃ ایام و مامسنا من لغوب : اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کی اور ہم کو اس سے بالکل تھکاوٹ نہیں ہوئی “۔ اس اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مدت مقرر کرنے کے بعد اس میں اضافہ کرنا بھی جائز ہے اور حاکم کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک مدت کے بعد دوسری مدت مقرر کرسکتا ہے۔

بندوں کے اعذار کی آخری مدت ساٹھ سال ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے بندوں کی لغزشوں سے درگزر کرنے کی بھی ایک مدت مقرر کردی ہے اور اس مدت کے بعد اس کی لغزشوں پر کوئی عذر قبول نہیں فرماتا۔ 

اماممحمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کی اجل کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سال تک پہنچا دیا ہو، اللہ تعالیٰ نے اس کے تمام اعذار (بہانوں) کو زائل کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6419 ۔ مسند احمد ج 3، رقم الحدیث : 8654)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : 

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ سٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد انسان کا کوئی عذر باقی نہیں رہا کہ وہ یہ کہہ سکے کہ اگر میری عمر زیادہ کردی جاتی تو میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرلیتا اور جب کہ وہ اب عزر کی انتہا کو پہنچ چکا ہے تو اب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کے لیے اس کا کوئی عذر باقی نہیں رہا جبکہ وہ جو عمر گزار چکا ہے اس میں وہ اللہ کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت پر قادر تھا۔ سو اس کو چاہیے کہ اب وہ اللہ تعالیی سے صرف استغفار کرے اور اس کے احکام کی اطاعت کرے اور آخرت کی طرف بالکلیہ متوجہ ہوجائے، اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ ت عالیٰ نے بندہ کے لیے اب کوئی عذر اور بہانہ نہیں چھوڑا۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر اپنی حجت پوری کرنے کے بعد ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔ 

معمر کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ساٹھ یا ستر سال کی عمر تک مہلت دیتا ہے اور جب وہ اس عمر کو ہپنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعذار کو زائل کردیتا ہے۔ یعنی اس عمر کے بعد اب ترک اطاعت پر کوئی عذر کارگر نہیں ہوگا۔ 

علامہ ابن بطال نے کہا کہ ساٹھ سال کی عمر کو اس لیے حد مقرر فرمایا ہے کہ یہ انسان کی عادۃ غالب عمر کے قریب ہے اور یہ وہ عمر ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے اور موت کے انتظار میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندہ کو بار بار موقع عطا فرماتا ہے اور یہ اللہ سبحانہ کا بندوں پر لطف اور کرم ہے حتی کہ وہ ان کو حالت جہل سے حالت علم کی طرف منتقل کرتا ہے۔ پھر ان کو مہلت دیتا ہے حتی کہ واضح حجتوں کے بعد ان سے مواخذہ نہیں فرماتا۔ ہرچند کہ انسانوں کی فطرت میں دنیا سے محبت کرنا اور لمبی امیدیں رکھنا ہے لیکن ان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نفسوں سے مجاہد کریں اور اللہ تعالیٰ نے جن نیک کاموں کا حکم دیا ہے وہ کام کریں اور جن برے کاموں سے روکا ہے ان سے باز رہیں۔ اور اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جب انسان ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی موت آنے کا غالب گمان ہے۔ امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہوں گی اور بہت کم ستر سال سے تجاوز کریں گے۔ بعض حکماء نے یہ کہا ہے کہ انسان کی عمر کے چار ادوار ہیں۔ (1) بچپن (2) جوانی (3) ادھیڑ عمر (4) بڑھاپا اور یہ عمر کا آخری دور ہے اور زیادہ تر یہ دور ساٹھ اور ستر سال کی عمر میں ہوتا ہے اور اس وقت انسان کی جسمانی قوت ضعف اور انحطاط کی طرف مائل ہوتی ہے، اور اب اس کو چاہیے کہ وہ بالکلیہ آخرت کی طرف متوجہ ہوجائے کیونکہ اب وہ قوت اور نشاط کی حالت کی طرف نہیں لوٹ سکتا اور اسی حدیث سے علماء شافعیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ جو شخص ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا پھر بھی اس نے قدرت اور استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا تو وہ گنہ گار ہوگا اور اگر اس سے پہلے قدرت کے باوجود تاخیر کی تو وہ گنہ گار نہ ہوگا۔ (فتح الباری ج 11، ص 240، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)

امام مالک نے کہا ہمارے شہر کے علماء چالیس سال تک لوگوں سے مل جل کر رہتے ہیں اور دنیا کو طلب کرتے ہیں چالیس سال کے بعد وہ ان چیزوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن ج 8، ص 249، دار الفکر، 1415 ھ)

شمسی اور قمری تاریخ مقرر کرنے کا ضابطہ :

یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ تاریخ دنوں کی بجائے راتوں سے کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ثلاثین لیلۃ، تیس راتیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قمری مہینہ کی ابتداء رات سے ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا اور عجمیوں کا معمول اس کے خلاف ہے، کیونکہ وہ تاریخ کا اعتبار شمسی مہینوں سے کرتے ہیں۔ علامہ ابن العربی نے کہا : دنیاوی امور اور منافع میں شمسی مہینوں کا حساب جائز ہے اور عبادات اور شرعی احکام میں قمری مہینوں کے حساب سے تاریخیں مقرر کرنا واجب ہے۔ 

حضرت ہارون (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانا اور ان کو نصیحت فرمایا ان کی شان میں کمی کا موجب نہیں۔

اس کے بعد فرمایا : اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا۔ 

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر جا کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کا ارادہ کیا تو اپنے فرائض حضرت ہارون (علیہ السلام) کو سونپ دیے۔ اس آیت میں کسی کو اپنا نائب بنانے کی اصل ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نبوت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شریک تھے تو انہوں نے حضرت ہارون کو اپنا خلیفہ کیسے بنایا ! کیونکہ جو شخص کسی انسان کا شریک ہو وہ اس کے خلیفہ سے بڑے مرتبہ کا ہوتا ہے اور کسی انسان کو بڑے مرتبہ سے کم مرتبہ پر مقرر کرنا اس کی توہین ہے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانا کس طرح جائز ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قاعدہ یہی ہے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبوت میں اصل تھے کیونکہ پہلے ان کو نبی بنایا گیا اور ان کی دعا سے حضرت ہارون کو نبی بنایا گیا اور وہ ان کے وزیر تھے اور فرعون اور بنو اسرائیل کے ساتھ تمام معاملات میں حضرت موسیٰ ہی کو خطاب کیا گیا، ان ہی سے کلام کیا گیا اور ان ہی پر کتاب نازل کی گئی ان ہی کو معجزات عطا کیے گئے اور فرعون اور قبطیوں کے نزدیک وہی مسئول تھے اور رشد و ہدایت کا کا اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر بنو اسرائیل سے عمل کرانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے ذمہ تھا۔ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنانے کا معنی یہ تھا کہ بنو اسرائیل کی رشد و ہدایت کے سلسلہ میں جو فرائض منصبی موسیٰ (علیہ السلام) انجام دیتے تھے وہ اب حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انجام دینے ہیں اور اس معنی میں ان کو اپنا خلیفہ بنانے سے ان کے مرتبہ میں ہرگز کمی نہیں ہوئی۔ 

نیز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا : ” اور ٹھیک ٹھیک کام کرنا اور مفسدوں کے طریقہ پر کاربند نہ ہونا “

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نبی تھے اور نبی ٹھیک ٹھیک کام ہی کرتا ہے اور مفسدوں کی پیروی نہیں کرتا، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے اس طرح کیوں فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بہ طور تاکید فرمایا تھا یا پھر بہ طور تعریض تھا یعنی صراحتاً حضرت ہارون کو خطاب تھا اور اشارتاً اپنی قوم سے خطاب تھا۔ اس کی نظیر یہ آیت ہے : ” فاستقم کما امرت : سو آپ اسی طرح قائم رہیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے ” (ھود :112) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی معصوم ہیں، آپ سے یہ متصور نہیں ہے کہ آپ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام کریں۔ اس لیے یہ ارشاد بھی تاکید اور تعریض کے طور پر ہے۔ اسی طرح اس آیت میں فرمایا : ” ولئن التبعت اھواءہم من بعد ماجاءک من العلم انک اذا لمن الظلمین : اور اگر آپ نے (بالفرض) علم آنے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کی تو بیشک آپ کا شمار ضرور ظالموں میں سے ہوگا ” (البقرہ : 145) ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے : ” لئن اشرکت لیحبطن عملک و لتکونن من الخسرین : اگر (بالفرض) آپ نے (بھی) شرک کیا تو آپ کے عمل ضائع ہوجائیں گے اور آپ ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ” (الزمر : 65)

آپ سے یہ متصور ہے کہ آپ یہودیوں کی پیروی کریں نہ یہ متصور ہے کہ آپ شرک کریں کیونکہ آپ نبی معصوم ہیں۔ اس کے باوجود آپ کو ان دونوں کاموں سے بہ طور تاکید منع فرمایا پھر خطاب آپ کو فرمایا اور مراد آپ کی امت ہے۔ اسی نہج پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ہے انہوں نے حضرت ہارون سے بہ طور تاکید یا بہ طور تعریض کلام فرمایا۔ 

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حضرت علی بہ منزلہ ہارون ہیں : 

امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261 ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) کو (مدینہ میں اپنا) خلیفہ بنایا۔ حضرت علی نے کہا : یارسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنا رہے ہیں ! آپ نے فرمایا کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے البتہ میرے بعد میں کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابہ : 31 (204) 6101 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 4416 ۔ سنن الترمذی، رقم الحدیث : 3752 ۔ السنن الکبری للنسائی ج 3، رقم الحدیث : 8435 ۔ مسند احمد ج 1، ص 185)

حدیث مذکور سے روافض کا حضرت علی کی خلافت بلا فصل پر استدلال : 

اس حدیث سے روافض، امامیہ اور شیعہ کے تمام فرقوں نے اس پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو تمام امت پر اپنا خلیفہ بنادیا تھا۔ اور اس بنا پر روافض نے تین کے سوا تمام صحابہ کی تکفیر کردی، کیونکہ صحابہ کرام نے اس نص صریح کو چھوڑ کر اپنے اجتہاد سے حضرت علی (رض) کے غیر کو خلیفہ بنادیا۔ 

چوتھی صدی کے مشہور شیعہ عالم شیخ ابو عمرو محمد بن عمر بن عبدالعزیز کشی لکھتے ہیں :

ابوجعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد تین شخصوں کے سوا سب مرتد ہوگئے تھے۔ میں نے پوچھا : وہ تین شخص کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : مقداد بن اسود، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی۔ (رجال کشی ص 12، مطبوعہ ایران)

اور شیخ ابوجعفر محمد بن یعقوب کلینی رازی متوفی 328 ھ روایت کرتے ہیں : 

عبدالرحیم قصیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر (علیہ السلام) سے کہا کہ جب ہم لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ سب لوگ مرتد ہوگئے تھے تو لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا اے عبدالرحیم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد سب لوگ دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے (الروضہ من الکافی (فروع کافی ج 8) ص 296، مطبوعہ طہران، 1362 ھ)

اور جن لوگوں نے تمام امت اور خصوصاً تمام صحابہ کی تکفیر کی ان کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن مجید صحابہ کرام کے نقل کرنے اور جمع کرنے سے ثابت ہے اگر یہ ناقلین کافر تھے تو ان کی نقل پر بھی اعتماد نہیں ہوگا۔ نیز تمام احادیث بھی ان ہی صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہیں، اگر یہ کافر تھے تو تمام احادیث بھی غیر معتبر قرار پائیں گی اور جب قرآن اور حدیث دونوں غیر معتبر اور غیر معتمد قرار پائے تو شریعت بالکلیہ باطل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی حجت بندوں پر قائم نہ رہی۔ 

روافض کے استدلال مذکور کا جواب : 

اور اس حدیث سے ان کا حضرت علی کی تمام پر خلافت کا استدلال کرنا باطل ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خاص معاملہ میں ایک خاص وقت کے لیے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنایا تھا جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک خاص وقت تک کے لیے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب نایا تھا اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی مناجات سے واپس آگئے تو حضرت ہارون اپنی سابق حالت پر لوٹ آئے۔ علاوہ ازیں حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اصل رسالت میں شریک اور ان کے وزیر تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وصال کے بعد وہ ان کے خلیفہ نہیں تھے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی ہی میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کا میدان تیہ میں انتقال ہوگیا تھا، اس لیے اس حدیث سے روافض اور شیعہ کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس حدیث کی زیادہ سے زیادہ اس چیز پر دلالت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک جاتے وقت حضرت علی (رض) کو صرف مدینہ میں بچوں اور عورتوں کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنا نائب بنایا تھا اور نماز پڑھانے کے لیے ان کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا بلکہ یہ منصب حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم کے سپرد کیا تھا اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آگئے تو حضرت علی (رض) اپنی پہلی حیثیت کی طرف لوٹ آئے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم (رض) وغیرہ کو اپنا نائب بنایا تھا جیسا کہ ہم عنقریب با حوالہ بیان کریں گے۔ سو اس حدیث سے حضرت علی (رض) کا تمام امت پر دائماً خلیفہ بننا لازم نہیں آتا۔

حضرت ابن ام مکتوم کو تمام مغازی میں خلیفہ بنانا 

امام محمد بن سعد متوفی 230 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

شعبی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرہ غزوات میں تشریف لے گئے اور ہر غزوہ میں آپ نے ابن ام مکتوم کو خلیفہ بنایا وہ مسلمانوں کو نماز پڑھاتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔

شعبی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن اممکتوم کو غزوہ تبوک میں خلیفہ بنایا وہ مسلمانوں کو نماز پڑھاتے تھے۔

فائدہ : ابن ام مکتوم کے نام میں اختلاف ہے بعض نے کہا ان کا نام عبداللہ بن قیس ہے اور مشہور یہ ہے کہ ان کا نام عمرو بن قیس ہے۔ ان کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عبداللہ ہے ان کی کنیت ام مکتوم ہے۔ عمرو بن ام مکتوم مکہ میں قدیم اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ جنگ بدر سے کچھ عرسہ پہلے ہجرت کر کے مدینہ آئے اور دار القراء میں ٹھہرے۔ یہ مدینہ میں حضرت بلال (رض) کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اذان دیتے تھے اور عام غزوات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو خلیفہ بناتے تھے اور یہ مسلمانوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ آگئے تھے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر گئے ہوئے تھے تو یہ مسلمانوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ (الطبقات الکبری ج 4، ص 205 ۔ 206، مطبوعہ دار صادر بیروت، 1388 ھ)

امام ابن الاثیر علی بن محمد الجزری المتوفی 630 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ غزوات میں حضرت ابن ام مکتوم (رض) کو مدینہ میں خلیفہ بنایا اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے تب بھی آپ نے ان ہی کو خلیفہ بنایا تھا۔ (اسد الغابہ ج 4، ص 252، رقم :4011، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر القرطبی المتوفی 463 ھ نے بھی واقدی کی روایت سے زکر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ غزوات میں حضرت ابن ام مکتوم کو خلیفہ بنایا اور امام ابن اثیرہ کی طرح ان غزوات کا تفصیل سے ذکر بھی کیا ہے۔ (الاستیعاب ج 3، ص 276، رقم : 1969، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں : امام ابن اسحاق نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت مصعب بن عمیر (رض) ہجرت کرکے آئے، پھر حضرت ابن ام مکتوم (رض) آئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام غزوات میں ان کو مدینہ میں خلیفہ بناتے تھے اور وہ مسلمانوں کو نماز پڑھاتے تھے۔

اس کے بعد حافظ عسقلانی نے امام عبدالبر کے حوالے سے ان تیرہ غزوات کی تفصیل ذکر کی ہے۔ (الاصابہ ج 4، ص 495، رقم : 8780، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

حضرت ابن ام مکتوم کی خلافت سے حضرت علی کے متعلق مزعوم خلافت بلا فصل پر معارضہ : 

ابن کثیر حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ حضرت ابن ام مکتوم (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ مرتبہ مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایا اور مسلمانوں کی نمازوں کا امام بنایا اور جب تیرہ مرتبہ خلیفہ بننے اور مسلمانوں کی نمازوں کا امام بننے سے یہ لازم نہیں آیا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد تمام امت کے امیر اور خلیفہ بننے اور مسلمانوں کی نمازوں کا امام بننے سے یہ لازم نہیں آیا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد تمام امت کے امیر اور خلیفہ بن جائیں تو صرف ایک مرتبہ مدینہ میں خلیفہ بننے سے حضرت علی (رض) کے لیے کیسے لازم آئے گا کہ وہ امت کے خلیفہ بن جائیں جبکہ نمازوں کے امام اس وقت بھی حضرت ابن ام مکتوم تھے۔ نیز اگر یہ حدیث حضرت علی (رض) کی خلافت بلا فصل پر دلیل تھی تو حضرت علی (رض) نے اس حدیث سے اس وقت کیوں نہیں استدلال کیا جب ان سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔ 

نیز یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ اور حضرت ہارون حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں امت پر کنٹرول نہیں کرسکے اور اس میں تفرقہ ہوا اور حضرت علی (رض) کے دور خلافت میں بھی ایسا ہی ہوا اور امت تفرقہ میں بٹ گئی، ہرچند کہ حق پر حضرت علی تھے جیسا کہ حق پر حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر بالفرض اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارہ ہے، تو اس بشارت سے مراد وہی زمانہ ہے جس زمانہ میں حضرت علی (رض) کو خلیفہ بنایا گیا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 142