وزیر اعظم کی بے احتیاطی:

از قلم مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان صاحب۔

وزیر اعظم کی نیت پر ہمیں شبہ نہیں ہے، وہ نیک نیتی سے ریاستِ مدینہ کا نام لیتے ہیں اور بعض اوقات سیرتِ طیبہ کے حوالے دیتے ہیں، لیکن نہ وہ دین کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اور نہ دین کے بارے میں ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ ہم نے پہلے بھی ان کو اخلاص کے ساتھ مشورہ دیا کہ وہ وسیع مطالعے کے بغیر اپنی سیاست کے لیے دینی مقدّسات کے حوالے نہ دیں۔ پیرکے دن انہوں نے ایک خطاب کے دوران رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے ایک انتہائی نامناسب کلمہ استعمال کیاجس کی کوئی توجیہ کسی بھی درجے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے،حالانکہ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اردو زبان میں متبادل الفاظ موجود ہیں، مثلاً :’’کفار نے آپ ﷺ کو شدید اذیت پہنچائی، آپ پرمظالم ڈھائے، آپ کو لہولہان کردیا ،وغیرہ‘‘۔ ان کی کابینہ میں جناب پیر نورالحق قادری عالم دین ہیں، جنابِ شاہ محمود قریشی سجادہ نشین ہیں، جنابِ علی محمد خان درود شریف پڑھ کر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، اقتدار آنی جانی چیز ہے، ان حضرات کو چاہیے کہ وزیر اعظم کو نجی مجلس میں سمجھائیں کہ وہ مقدّساتِ دین کے بارے میں غیر محتاط کلمات استعمال نہ کریں۔

کلمۂ اہانت میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا،شریعت کا حکم ظاہر پر لگتا ہے اورلوگ بھی زبان پر جاری ہونے والے الفاظ سے مثبت یا منفی تاثر لیتے ہیں، نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتاہے۔قرآنِ کریم نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں کوئی ذو معنی کلمہ استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ عالی ہر عیب سے پاک ہے،عام انسان کتنا ہی دانا وبینا کیوں نہ ہو، خطا سے مبرّا نہیں ہے۔ آج کل لوگ اپنے سیاسی قائدین کے بارے میں اندھی عقیدت میں مبتلا ہوچکے ہیں ، کوئی اصلاح کی نیت سے گرفت کرے یا مشورہ دے تو وہ بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے ۔مسلمان کو جان لینا چاہیے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم سے وفا کا رشتہ کام آئے گا، یہ قائدین کسی کو بچانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ یہ آپ کے سیاسی رہنما ہیں،دینی پیشوا نہیں ہیں، سیاسی امور میں آپ کو ان سے محبت کرنے اوران کی جائز باتوں کی حمایت کرنے کا حق حاصل ہے ، لیکن دینی اعتبار سے قابلِ گرفت باتوں کی حمایت کرنا اپنی عاقبت کو برباد کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ایسی اندھی عقیدت سے سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔

(روزنامہ دنیا، 14دسمبر2019