*موجودہ حالات اور ہماری ذمے داریاں*

خود کفیل بنیں… اپنے تعلیمی اداروں کے وسائل مضبوط کریں…

غلام مصطفیٰ رضوی

[نوری مشن مالیگاؤں]

اسلام کے خلاف باطل کی یورش ہر دور میں رہی ہے۔ جیسے حملے ہوں اس کے موافق اپنا دفاع ضروری ہے۔ اس وقت ہر شعبہ میں ہمیں تعصب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ تعلیم، معیشت، شریعت، اوقاف غرض کہ کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس پر ضرب نہ لگائی جا رہی ہو۔ حالات کے پیش نظر اور اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں درج ذیل نکات پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ ہم اپنے تشخص کو بچا سکیں اور بحیثیت مسلمان اپنے ایمان و عقیدہ کے تحفظ کی فکر کریں۔

*پس ماندہ طبقات سے متعلق:*

دَھرم پریورتن اور فتنۂ اتداد کی دستک ہے۔ مسلمانوں کو مشرک/کافر/عیسائی بنانے کے لیے ہندو تنظیمیں/مشنریاں سرگرمِ عمل ہیں۔ اس رُخ سے چاہیے کہ ہم:

[۱] غریبوں کی کفالت کریں۔

[۲] غریب/مریضوں سے اظہارِ ہمدردی کریں۔ علاج و معالجہ کا بہتر انتظام کریں۔

[۳] غریب/یتیم بچیوں کی شادی کا انتظام کریں۔شادیاں سادگی سے اور کم خرچ میں ادا کریں۔

[۴] غریب بچوں کی تعلیم (دینی/عصری) کی کفالت متمول افراد(امرا) اپنے ذمہ لیں۔

[۵] غریبوں، پچھڑے لوگوں، ناداروں سے حُسنِ سلوک کریں، جھڑکنے سے بچیں، ان کا دل نہ توڑیں، اس لیے بھی کہ اغیار دل جوئی، داد رَسی، مالی اعانت سے ہی فتنۂ اتداد پھیلا رہے ہیں۔ جب کہ حُسنِ سلوک کی تعلیم تو سُنّتِ نبوی ﷺ ہے۔ جس پر ہمیں بہر حال عمل کرنا ہی چاہیے۔

*مدارس سے متعلق:*

*(الف)* نظام و تربیت:

[۱] مدارس، مکاتب میں وقت کی قدر دانی کی جائے۔تمام نظام وقت کی پابندی سے ہی چلائے جائیں۔

[۲]معیاری تعلیم دی جائے۔ اساتذہ لگن سے پڑھائیں۔کم وقت میں زیادہ مواد طلبہ تک پہنچائیں تا کہ جامع تعلیم ہو۔

[۳] طلبہ کی اخلاقی تربیت کریں۔ بوقتِ تربیت اساتذہ و طلبہ کے لیے موبائل کا استعمال ممنوع ہو۔

[۴] طلبہ کو اسلامی/ہندستانی تاریخ بھی بتائی جائے تا کہ ان کے اندر خود داری و شجاعت پیدا ہو۔

[۵]نماز، اعمالِ صالح کی پابندی کروائی جائے۔ اخلاقی تربیت۔ بڑوں کا ادب و احترام، حسنِ سلوک سکھایا جائے۔

[۶] اردو، عربی، فارسی کے ساتھ ہی انگریزی اور ہندی زبانیں بھی سکھائی جائیں۔ بہترین عربی سکھائی جائے۔ تلفظ درست کروایا جائے۔

[۷] قوم کے طلبہ کو ان کے ذوق کے پیشِ نظر وکالت، معیشت، سیاسی امور سے منسلک تعلیم بھی دلوائی جائے۔

[۸] دینی تعلیم، امامت، تدریس میں انھیں قومی تعمیر کی لگن کو فائق رکھنے کا درس دیا جائے۔ تعلیم برائے معاش کی بجائے تعلیم برائے خدمت کا مزاج تشکیل دیا جائے۔

[۹] تعلیمی ادارے خستہ بھی ہوں تو چل جائے گا لیکن ادارہ صاف ستھرا ہو، ڈسپلن کا پابند ہو۔

[۱۰] ادارے کے پروگراموں میں شریعت کی حدود میں، وطن سے محبت کے اظہار میں بھی پروگرام منعقد کیے جائیں۔

*(ب)* وسائل و ترقی:

[۱]مدارس کے مصارف میں اعتدال کی راہ اختیار کی جائے۔

[۲] وسائل اگر کم ہوں تو ضروریات کی تشفی محدود وسائل سے کی جائے۔ مثلاً ۵؍اساتذہ درکار ہوں، وسائل ۴؍ اساتذہ کے ہوں تو اضافی محنت سے ۴؍ اساتذہ میں ۵؍ اساتذہ کی ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں۔

[۳] اساتذہ کی تنخواہ مناسب دی جائے کہ زمانی ضروریات کے پیشِ نظر بہتر گزر بسر ہو سکے۔

[۴] ادارہ کے اضافی اخراجات پر قابو پایا جائے۔ جیسے سالانہ اجلاس میں دو یا زیادہ مقررین کی بجائے ایک مقرر بلایا جائے۔ زیادہ نذرانہ دینے کی روایت ختم کر کے درمیانہ نذرانہ پیش کیا جائے۔

[۵]جلسوں، پروگراموں کے اشتہارات بجائے ملٹی کلر کے عام کاغذ پر سادہ و یک رنگی شائع کیے جائیں۔ دعوت نامے سادہ بنوائے جائیں۔ اخراجات پر کنٹرول کیا جائے۔

*دیگر سرگرمیوں سے متعلق:*

[۱] جلسوں کے وقت میں کمی کی جائے۔پوری رات کے اجلاس کو محض دو ڈھائی گھنٹوں میں سمیٹا جائے۔

[۲] ہر کام وقت کی پابندی کے ساتھ کیے جائیں۔

[۳] باہمی تنازعہ پر آپس میں مل بیٹھ کر حل تلاش کیے جائیں۔کورٹوں سے قوم کو بچایا جائے۔ اعلیٰ حضرت نے ایک صدی قبل فرمایا تھا کہ:

’’باستثنا(علاوہ اس کے) ان معدود(چند)باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی(دخل)ہو اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے، اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے یہ کروروں روپے جو اسٹامپ و وکالت میں گھسے جاتے ہیں گھر کے گھر تباہ ہو گئے اور ہوئے جاتے ہیں محفوظ رہتے۔‘‘(تدبیر فلاح و نجات و اصلاح،ص۱۲، نوری مشن مالیگاؤں۲۰۰۸ء)

[۴]تجارتی معاملات میں قومی مفاد کو ترجیح دیں، اپنی مصنوعات کا فروغ ہو اور مسلم تاجر بھی مالوں کے دام کم نفع کے اعتبار سے متعین کریں تا کہ فروخت زیادہ ہو اور نفع میں برکت ظاہر ہو۔ اعلیٰ حضرت نے سو سال قبل فرمایا تھا:

’’اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا۔ اپنی حرفت و تجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہ رہتے یہ نہ ہوتا کہ یورپ و امریکا والے چھٹانک بھر تانبا کچھ صناعی(ہنر)کی گڑھت کر کے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر آپ کو دے جائیں اور اس کے بدلے پائو بھر چاندی آپ سے لے جائیں۔‘‘ (نفس مصدر)

بہر کیف! محض چند ساعتوں میں یہ تجاویز ذکر کی گئیں۔ تا کہ عمل کی کوئی صورت پیدا کی جا سکے۔ ہندستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر مسلمانوں کی دینی و تعلیمی بقا کے لیے ہم بیدار ہوں تا کہ اسلام دُشمن طاقتوں کے عزائم خاک میں ملیں۔

٭ ٭ ٭

٣٠ دسمبر ٢٠١٩ء