(۵) غیرخدا کی عبادت حرام و کفر ہے

۱۰۔ عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : إجتمعت نصاری نجران و أحبار یہود عند رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فتنازعوا عندہ فقالت الأحبار: ما کان إبرٰہیم إلایہودیا ، و قالت النصاری ما کان إبرٰہیم إلانصرانیا فأنزل اللہ فیہم’’ یَا أہلَ الکِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إبرٰہیم و ما أنزِلَتِ التورٰۃ و الإنجیلُ إلاّ مِن بَعدہٖ ‘‘ إلی قولہٖ : ’’ و اللہُ و لیُّ المُؤمِنِیْنَ ‘‘فقال أبو رافع القرظی حین إجتمع عندہ النصاری و الأحبار فدعا ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم إلی الإسلام أترید مِنّا یا محمد! أن نعبد ک کما تعبد النصاری عیسی بن مریم ‘‘ فقال رجل من أہل نجران نصرانی ، یقال لہ الرئیس و ذلک ترید و إلیہ تدعو، او کما قال ،فقال رسول اللہ : مَعاذَ اللہِ أن أعبدَ غیر اللہ أو آمُرَ بِعِبَادَۃِ غیر ، ما بذلک بعثنی و لا أمرنی ۔ فأنزل اللہ عزوجل فی ذلک من قولہما ۔ ما کان لِبَشَرٍأن یؤتِیَہ اللہُ الکِتَابَ وَ الحُکْمَ و النُّبُوَّۃَ ثُم یقولُ للنّاسِ کُونُوا عِباداً لِی مِن دُونِ اللہ لٰکِنْ کُونُوا رَبَّانِیّیِنَ بِما کُنتم تَعلَمُونَ الکِتَابَ و بِما کُنتم تَدرُسُونَ و لایأمرُکم أن تَتَخِذُوا المَلاَئِکَۃَ و النّبِیِّینَ أرْبَاباً أیَأمُرُ کُم بِالکُفْرِ بَعدَ إذ أنتمْ مُسلِمُونَ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نجران کے نصاری اور یہود ی عالم حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کے پاس ہی آپس میں جھگڑنے لگے ۔ یہودی عالم بولے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی ہی تھے ۔ نصار ی نے کہا: حضرت ابرہیم علیہ السلا م نصرانی ہی تھے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے انکے اختلاف کو دفع کرنے کیلئے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ ۱۲م

اے کتاب والو! ابراہیم کے باب میں کیوں جھگڑتے ہو؟ تو رات و انجیل تو نہ اتری مگر انکے بعد ۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔ سنتے ہو یہ جو تم ہو اس میں جھگڑے جسکا تمہیں علم تھا تو اس میں کیوں جھگڑتے ہو جسکا تمہیں علم ہی نہیں ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ ابرہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے ۔ اور مشرکوں سے نہ تھے۔ بیشک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ حقدار وہ تھے جو انکے پیرو ہوئے اور یہ نبی اور ایمان والے اور ایمان والوں کا والی اللہ ہے ۔ ( کنز الایمان)

جب یہودی اور نصرانی حضور کی خدمت میں جمع ہوئے اور حضور نے انکو اسلام کی دعوت دی تو ابو رافع قرظی نے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت کریں جس طرح نصاری عیسی ابن مریم کی عبادت کرتے ہیں ؟ اور ایک نجرانی عیسائی نے جس کا نام رئیس مشہور تھا اس نے کہا ۔ کیا آپ یہ ہی چاہتے ہیں اور اسی کی دعوت دے رہے ہیں ؟ اس پر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : معاذ اللہ کہ میں غیر اللہ کی عباد ت کروں یا اسکے غیر کی عبادت کا حکم دوں ۔ نہ مجھے اس لئے مبعوث کیا گیا ہے اور نہ مجھے اسکا حکم ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں دونوں کے قول کی تردید اس طرح نازل فرمائی ۔ ۱۲م

کسی آدمی کا یہ حق نہیں کہ اللہ اسے کتاب اور حکم و پیغمبری دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جائو ۔ ہاں یہ کہے گا کہ اللہ والے ہو جائو۔ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو ۔ اور نہ تمہیں یہ حکم دے گا کہ فرشتوں اورپیغمبروں کو خدا ٹھہر الو ۔ کیا تمہیں کفر کا حکم دے گا بعد اسکے کہ تم مسلمان ہوئے ۔

(کنز الایمان ) ۔ فتاو ی رضویہ حصہ دوم ۹/۱۸۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۰۔ دلائل النبوۃ للبیہقی ، ۵/۳۸۴ ٭ الدر المنثور للسیوطی ، ۲/۴۰

التفسیر لابن کثیر ، ۲/۵۴ ٭ التفسیر للطبرانی ، ۳/۳۰۵