قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَاؕ-قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠(۱۲۹)

بولے ہم ستائے گئے آپ کے آنے سے پہلے (ف۲۳۳ )اور آپ کے تشریف لانے کے بعد (ف۲۳۴) کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور اس کی جگہ زمین کا مالک تمہیں بنائے پھر دیکھے کیسے کام کرتے ہو(ف۲۳۵)

(ف233)

کہ فرعون اور فرعونیوں نے طرح طرح کی مصیبتوں میں مُبتلا کر رکھّا تھا اور لڑکوں کو بہت زیادہ قتل کیا تھا ۔

(ف234)

کہ اب وہ پھر ہماری اولاد کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو ہماری مدد کب ہوگی اور یہ مصیبتیں کب دفع کی جائیں گی ۔

(ف235)

اور کس طرح شکرِ نعمت بجا لاتے ہو ۔

وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۳۰)

اور بے شک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط اورپھلوں کے گھٹانے سے پکڑا(ف۲۳۶)کہ کہیں وہ نصیحت مانیں(ف۲۳۷)

(ف236)

اور فَقر و فاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا ۔

(ف237)

اور کُفر و معصیّت سے باز آئیں ۔ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدّت میں کبھی درد یا بخار یا بھوک میں مُبتلا ہی نہیں ہوا ، اب قَحۡط سالی کی سختی ان پر اس لئے ڈالی گئی کہ وہ اس سختی ہی سے خدا کو یاد کریں او راس کی طرف متوجّہ ہوں لیکن وہ کُفر میں اس قدر راسِخ ہو چکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی ہی بڑھتی رہی ۔

فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)

تو جب انہیں بھلائی ملتی(ف۲۳۸)کہتے یہ ہمارے لیے ہے (ف۲۳۹) اور جب برائی پہنچتی تو موسی اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے (ف۲۴۰)سن لو ان کے نصیبہ(مُقَدَّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے (ف۲۴۱) لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں

(ف238)

اور اَرۡزانی و فَراخی و امن و عافیت ہوتی ۔

(ف239)

یعنی ہم اس کے مستحق ہی ہیں اور اس کو اللہ کا فضل نہ جانتے او رشکرِ الٰہی نہ بجا لاتے ۔

(ف240)

اور کہتے کہ یہ بَلائیں ان کی وجہ سے پہنچیں اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں ۔

(ف241)

جو اس نے مُقدّرکیا ہے وہی پہنچتا ہے اور یہ ان کے کُفر کے سبب ہے ۔ بعض مفسِّرین فرماتے ہیں معنٰی یہ ہیں کہ بڑی شامت تو وہ ہے جو ان کے لئے اللہ کے یہاں ہے یعنی عذابِ دوزخ ۔

وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲)

اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں(ف۲۴۲)

(ف242)

جب ان کی سرکشی یہاں تک پہنچی تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے ان کے حق میں بد دعا کی ۔ آپ مُستَجابُ الدعوات تھے ، دعا قبول ہوئی ۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)

تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان(ف۲۴۳) اورٹِیڑی(ٹِڈِّی) اور گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں(ف۲۴۴)تو انہوں نے تکبر کیا(ف۲۴۵) اور وہ مجرم قوم تھی

(ف243)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کُفر و سرکشی پر جمے رہے تو ان پر آیاتِ الٰہیہ پِیاپے وارِدہونے لگیں کیونکہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ یاربّ ! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ، انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت تو اللہ تعالٰی نے طوفان بھیجا ، اَبر آیا ، اندھیرا ہوا ، کثرت سے بارش ہونے لگی ، قُبطِیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہَنسلِیوں تک آ گیا ، ان میں سے جو بیٹھا ڈوب گیا ، نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے ، سنیچرسے سنیچر تک سات روز تک اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر ان کے گھروں سے متصل تھے ان کے گھروں میں پانی نہ آیا ۔ جب یہ لوگ عاجِز ہوئے تو حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے عرض کیا ہمارے لئے دعا فرمائیےکہ یہ مصیبت رفع ہو تو ہم آپ پر ایمان لائیں اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے دعا فرمائی طوفان کی مصیبت رفع ہوئی ، زمین میں وہ سرسبزی و شادابی آئی جو پہلے نہ دیکھی تھی ، کھیتیاں خوب ہوئیں ، درخت خوب پھلے تو فرعونی کہنے لگے یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے ۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گذرا پھر اللہ تعالٰی نے ٹِڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل ، درختوں کے پتے ، مکان کے دروازے ، چھتیں ، تختے ، سامان حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قُبطِیوں کے گھروں میں بھر گئیں اور بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں ۔ اب قُبطِیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسٰی علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی ، ایمان لانے کا وعدہ کیا اس پر عہد و پیمان کیا ۔ سات روز یعنی شنبہ سے شنبہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے پھر حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی ۔کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے عہدِ وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گذرا پھر اللہ تعالٰی نے قُمَّل بھیجے ۔ اس میں مفسِّرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ قُمَّل گُھن ہے ، بعض کہتے ہیں جوں ، بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے ، اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھا لئے ، کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جِلد کو کاٹتا تھا ، کھانے میں بھر جاتا تھا اگر کوئی دس بوری گیہوں چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال ، بَھنویں ، پَلکیں چاٹ گئے ، جسم پر چَیچک کی طرح بَھرجاتے ، سونا دشوار کر دیا تھا ۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور انہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا ہم توبہ کرتے ہیں آپ اس بَلا کے دفع ہونے کی دعا فرمائیے چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت کی دعا سے رفع ہوئی لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کئے ، ایک مہینہ امن میں گذرنے کے بعد پھر حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بددعا کی تو اللہ تعالٰی نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اسکی مجلس میں مینڈک بھر جاتے تھے ، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر مُنہ میں پہنچتا ۔ ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تھے ، آگ بجھ جاتی تھی ، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے ۔ اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں حضرت موسٰی علیہ السلام نے ان سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دفع ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا لیکن پھر انہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کُفر کی طرف لوٹے پھر حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بد دعا فرمائی تو تمام کنووں کا پانی ، نہروں اور چشموں کا پانی ، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا ، انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کر دی ۔ انہوں نے کہا کیسی نظر بندی ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں تو فرعون نے حکم دیا کہ قُبطِی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں تو جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا قُبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا تو وہ پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا تو فرعونی عورت کہنے لگی کہ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کُلی کر دے جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا خون ہوگیا ۔ فرعون خود پیاس سے مُضطر ہوا تو اس نے تر درختوں کی رَطوبت چُوسی وہ رَطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی ۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی مُیسّر نہ آئی تو پھر حضرت موسٰی علٰی نبِیّنا و علیہ الصلٰوۃ والسلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ۔ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی رفع ہوئی مگر ایمان پھر بھی نہ لائے ۔

(ف244)

ایک کے بعد دوسری اور ہر عذاب ایک ہفتہ قائم رہتا اور دوسرے عذاب سے ایک مہینہ کا فاصلہ ہوتا ۔

(ف245)

اور حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان نہ لائے ۔

وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ(۱۳۴)

اور جب ان پر عذاب پڑتاکہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے (ف۲۴۶) بے شک اگر تم ہم پر سے عذاب اٹھا دو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اوربنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے

(ف246)

کہ وہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا ۔

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ(۱۳۵)

پھر جب ہم اُن سے عذاب اٹھالیتے ایک مدّت کے لیے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(۱۳۶)

تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا (ف۲۴۷) اس لیے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے(ف۲۴۸)

(ف247)

یعنی دریائے نیل میں جب بار بار انہیں عذابوں سے نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کُفر نہ چھوڑا تو وہ میعاد پوری ہونے کے بعد جو ان کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی انہیں اللہ تعالٰی نے غرق کرکے ہلاک کر دیا ۔

(ف248)

اصلاً تدبُّر و التفات نہ کرتے تھے ۔

وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ بِمَا صَبَرُوْاؕ-وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ(۱۳۷)

اور ہم نے اس قوم کو (ف۲۴۹) جو دبالی(کمزور سمجھی)گئی تھی اِس زمین (ف۲۵۰) کے پورب پچھم (مشرق ومغرب)کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت رکھی (ف۲۵۱) اور تیرے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل پر پورا ہوا بدلہ اُن کے صبر کا اور ہم نے برباد کردیا (ف۲۵۲) جو کُچھ فرعون اور اس کی قوم بناتی اور جو چُنائیاں اٹھاتے(تعمیر کرتے) تھے

(ف249)

یعنی بنی اسرائیل کو ۔

(ف250)

یعنی مصر و شام ۔

(ف251)

نہروں ، درختوں ، پھلوں ، کھیتیوں اور پیداوار کی کثرت سے ۔

(ف252)

ان تمام عمارتوں اور ایوانوں اور باغوں کو ۔

وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْۚ-قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ(۱۳۸)

اور ہم نے (ف۲۵۳) بنی اسرائیل کو دریا پار اُتارا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ اپنے بتوں کے آگے آسن مارے(عبادت کے لئے جم کر بیٹھے)تھے(ف۲۵۴) بولے اے موسیٰ ہمیں ایک خدا بنادے جیسا ان کے لیے ا تنے خدا ہیں بولا تم ضرور جاہل لوگ ہو(ف۲۵۵)

(ف253)

فرعون اور اس کی قوم کو دسویں محرّم کو غرق کرنے کے بعد ۔

(ف254)

اور ان کی عبادت کرتے تھے ۔ ابنِ جُرَیْح نے کہا کہ یہ بُت گائے کی شکل کے تھے ان کو دیکھ کر بنی اسرائیل ۔

(ف255)

کہ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی نہ سمجھے کہ اللہ واحد لاشریک لہ ہے اس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں اور کسی کی عبادت جائز نہیں ۔

اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۳۹)

یہ حال تو بربادی کا ہے جس میں یہ (ف۲۵۶) لوگ ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں نِرا(بالکل) باطل ہے

(ف256)

بُت پرست ۔

قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۱۴۰)

کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں زمانے بھر پر فضیلت دی(ف۲۵۷)

(ف257)

یعنی خدا وہ نہیں ہوتا جو تلاش کرکے بنا لیا جائے بلکہ خدا وہ ہے جس نے تمہیں فضیلت دی کیونکہ وہ فضل و احسان پر قادر ہے تو وہی عبادت کا مستحق ہے ۔

وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِۚ-یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۠(۱۴۱)

اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات بخشی کہ تمہیں بُری مار دیتے تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں باقی رکھتے اور اس میں تمھارے رب کا بڑا فضل ہوا (ف۲۵۸)

(ف258)

یعنی جب اس نے تم پر ایسی عظیم نعمتیں فرمائیں تو تمہیں کب شایان ہے کہ تم اس کے سوا اور کی عبادت کرو ۔