چند ضروری مسائل

مسئلہ: سوتے ہوئے آدمی کو نماز کے لئے جگانا جائز ہے بلکہ جگانا ضروری ہے ۔( احکام شریعت ، حصہ ۲، مسئلہ نمبر۶۶ ، ص۱۰۲، اور فتاوٰی رضویہ ،جلد ۳ ، ص ۱۹۸)

مسئلہ: حضورِ اقدس ، رحمت عالم ،صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا نام پاک مختلف جلسوں میں جتنی مرتبہ لے یاسُنے ،ہرمرتبہ درود شریف پڑھنا واجب ہے ۔ اگر درود شریف نہ پڑھے گا تو گنہگار ہوگااور سخت وعیدوں میں گرفتار ہوگا۔(فتاوٰی رضویہ ، جلد۳،ص۸۱)

مسئلہ: جو شخص صرف وظیفہ پڑھے اور نماز نہ پڑھے وہ فاسق و فاجر اور مرتکب کبائر ہے۔اسکا وظیفہ اس کے منہ پر مارا جائے گا ۔ایسوں ہی کے متعلق حدیث شریف میں ارشاد فرمایاگیاہے کہ ’’بہیترے قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن انہیں لعنت کرتاہے ۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد ۳ ، ص۸۲)

مسئلہ: حدیث صحیح میں قرآن مجید بآواز بلند ایسی جگہ پڑھنے سے ممانعت فرمائی ہے جہاں لوگ نماز پڑھ رہے ہوں ۔ قرآن مجید نے حکم فرمایا ہے کہ ’’ جب قرآن پڑھاجائے کان لگا کر سنو اور چپ رہو ۔‘‘ تو ایسی جگہ جہر سے پڑھنا ممنوع ہے ۔اور دو یا چند آدمیوں کا مل کر بلند آواز سے اس طرح قرآن شریف پڑھنا کہ ایک دوسرے کی آواز ٹکڑائے اور شور وغل اٹھے ، سخت ممنوع او ر قرآن کے حکم کے خلاف اور قرآن عظیم کی بے حرمتی ہے ۔ان لوگو ںکو چاہئے کہ آہستہ پڑھیں ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ،ص ۱۲۸)

مسئلہ: کچھ لوگوں میں یہ بات غلط رائج ہے کہ نماز میں سورۂ لہب ( تَبّتْ یَدٰی ) حتی الامکان نہیں پڑھنی چاہئے ۔ یہ غلط وہم و گمان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سورئہ لہب پڑھنے میں اصلاً کوئی حرج نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۱۲۹)

مسئلہ: طوائف کا رقص ( ناچ)دیکھنے والا شخص فاسق و فاجر ہے اور امامت کے لائق نہیں ۔(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۱۶۲)

مسئلہ: تعزیوں کی تعظیم کرنے والا اورناجائز مرثیوں کا پڑھنے والا فاسق اور بدعتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ایسے شخص کے پیچھے نمازمکروہ تحریمی ہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص۱۹۸)

مسئلہ: اپنے ماں باپ کو مارنے والا ، ستانے والا ، گالیاں دینے والا اور ایذا دینے والا اور اس کی ایذا رسائی سے اسکے ماں باپ ناراض ہیںتو ایسا شخص فاسق و فاجر اور شرعاً عاق (Disobedient) ہے اورا س کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ، واجب الاعادہ اور اس کو امام بنانا گناہ ہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۲۲۹ ، ص ۲۲۷)

مسئلہ: مزامیر (Music) حرام ہیں ، ان کا سننا بھی حرام ہے ۔جو شخص علانیہ مزامیر سنتا ہو وہ شخص امامت کے لائق نہیں۔ اس کی اقتدا میں نماز کراہت سے کسی حال میں خالی نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ ،جلد ۳ ، ص ۲۵۱)

مسئلہ: تہجد کی نماز سنت مستحبہ ہے اور تمام مستحب نمازوں سے اعظم اور اہم ہے۔قرآن مجید اور احادیث کریمہ حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اس کی ترغیب سے مالامال ہیں۔عامہ ٔ کتب مذہب میں اسے مندوبات و مستحبات میں شمارکیاگیاہے اگرچہ یہ نماز سنت مؤکدہ نہیں لیکن اس کاتارک فضل کبیر اور خیر کثیر سے محروم ہے لیکن گنہگار نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۵۴)

مسئلہ: ابتدائے امر میں تہجد کی نماز حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم پراور حضور کی امت پر فرض تھی لیکن بعد میں بدلیل اجماع امت اس نماز کی فرضیت امت کے حق میں منسوخ ہوگئی ۔ ام المومنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے حدیث مروی ہے کہ قیام لیل حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم پر فرض اور امت کے حق میں سنت تھا ۔ ( فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۵۵ ،اور ۴۵۶)

مسئلہ: عاشورہ کا دن بہت ہی فضیلت کادن ہے ۔اس دن تلاوت ِ قرآن ، ذکر و اذکاراور نوافل پڑھنے کی بہت فضیلت ہے ۔ لیکن عاشورہ کے دن کے معینہ نوافل بطریق مخصوصہ کے متعلق جو حدیث روایت کی جاتی ہے ، ائمہ دین اس حدیث کو موضوع اور باطل بتاتے ہیں ۔علامہ امام علی بن سلطان محمد ہروی قاری مکی حنفی المعروف بہ ملا علی قاری علیہ الرحمۃ والرضوان اپنی کتاب ’’ موضوعات کبیر ‘‘ میں عاشورہ کی نماز کے متلق فرماتے ہیں کہ ’’ صلاۃ عاشورہ موضوع بالاتفاق ‘‘ یعنی ’’ عاشورہ کی نماز بالاتفاق موضوع ہے۔‘‘ ( فتاوٰی رضویہ ،جلد ۳ ، ص ۴۶۰)