ایک اور معصوم بچی حیوانیت کا شکار ہوگئ

(( قاضی فقیہ امام ابن عربی مالکی اور عورت کی عصمت کی حفاظت))

امام ابن عربی مالکی کے پاس عورت کی عزت لوٹنے والے کو جب لایا گیا تو آپ کے اور مفتیوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا وہ کیا تھا؟از مفتی محمد علی ابن طفیل الأزہری

قاضی فقیہ امام ابن عربی مالکی رحمہ اللہ جب جج تھے تو ان دنوں عورت کی عزت لوٹنے کا ایک قصہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں:

ولقد كنت أيام تولية القضاء قد رفع إلي قوم خرجوا محاربين إلى رفقة ، فأخذوا منهم امرأة مغالبة على نفسها من زوجها ومن جملة المسلمين معه فيها فاحتملوها ، ثم جد فيهم الطلب فأخذوا وجيء بهم ،

فسألت من كان ابتلاني الله به من المفتين ، فقالوا:

ليسوا محاربين ؛ لأن الحرابة إنما تكون في الأموال لا في الفروج .

فقلت لهم: إنا لله وإنا إليه راجعون ، ألم تعلموا أن الحرابة في الفروج أفحش منها في الأموال ، وأن الناس كلهم ليرضون أن تذهب أموالهم وتحرب من بين أيديهم ولا يحرب المرأ من زوجته وبنته ، ولو كان فوق ما قال الله عقوبة لكانت لمن يسلب الفروج ، وحسبكم من بلاء صحبة الجهال وخصوصا في الفتيا والقضاء.

ترجمہ:

قاضی فقیہ امام ابن عربی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جب میں جج ( قاضی) تھا تو میرے پاس ایسے لوگوں کو لایا گیا جنہوں نے ایک قافلے پر حملہ کردیا ۔اور ان ( اوباش لوگوں) نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس قافلے میں سے ایک خاوند سے اسکی بیوی کو چھین لیا ۔

پھر قافلے والوں نے اسکے خاوند کا ساتھ دیتے ہوئے اسکی بیوی کو واپس کی لینے کی مکمل کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے پھر دوبارہ ان قافلے والوں نے پوری طاقت کے ساتھ أنکا مقابلہ کیا تو ان اوباش لوگوں کو پکڑ کر میرے پاس لے آئے ( عدالت میں) ۔

( عدالت کے اس بینچ میں) جو میرے ساتھ مختلف مفتی تھے مینے ان سے پوچھا کہ انکی سزاء کیا ہے؟

ان مفتیوں نے جواب دیا:

یہ محارب نہیں ہیں ( یعنی انکے اوپر حد حرابہ نہیں لگے گی ۔قارئین کرام! حد حرابہ اس کو کہتے ہیں جو قرآن کریم نے سورۃ المائدہ آیت نمبر 33 میں بیان کی جو سب سے سخت سزا ہے یعنی اس میں یہ ہے کہ مجرم کو یا قتل کردیا جائے ، یا مصلوب کردیا جائے ، یا مخالف سمت سے اسکے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں ،یا اسکو جلا وطن کردیا جائے ) کیونکہ حد حرابہ اموال غصب کرنے پہ ہوتی ہے نہ کہ عصمت دری پہ ۔

مینے ان مفتیوں کو جواب دیا:

( تمہاری جہالت پر) إنا لله وإنا إليه راجعون ( ہی کہ سکتا ہوں) ،

کیا تم نہیں جانتے کہ عصمت دری میں فساد مال کے فساد سے زیادہ برا ہے ۔

اور اس پر دلیل یہ ہے کہ ہر شخص اس بات پہ راضی ہوجاتا ہے کہ کہ اسکا مال اس سے چلا جائے اور اسکے سامنے سے غصب کرلیا جائے لیکن کوئی بھی شخص اس بات پہ راضی نہیں ہوتا کہ کوئی اپنی طاقت کے بل بوتے پر انکی ماں بہن کو چھین کر لے جائے ، اور اگر کوئی اس سے بھی بڑھ کر سزاء ہوتی جو اللہ نے حد حرابہ میں فرمائی تو وہ سزاء عصمت دری ( عورت کی عزت کو پامال) کرنے والوں کے لیے ہوتی ( لہذا یہ جو لوگ میرے پاس آئے ہیں انکے اوپر حد حرابہ ہی لگے گی کیونکہ انہوں نے اس عورت کی عزت پر حملہ کرنے کوشش کی) ۔

( پھر امام فقیہ ابن عربی مالکی رحمہ اللہ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:) جاہل لوگوں کی صحبت سے بچنا خاص کر جاہل مفتیوں اور ججز سے ( کیونکہ یہ غلط مسئلہ بتائیں گے آپکو)۔

( أحکام القرآن لابن عربی ، ج:2 ،ص :95 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

امام ابن عربی مالکی نے اس شخص پر بھی حد حرابہ لگانے کا فیصلہ صادر فرمایا جس نے صرف عورت کی عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی اور ہمارے ہاں معصوم بچیوں کی عزت لوٹ کر أنکو ماردیا جاتا ہے لیکن پھر بھی عدالتوں پہ کوئی اثر نہیں ہوتا ،

اور حکومت کوئی سخت پالیسی نہیں بناتی تاکہ عورت کی عصمت و عزت محفوظ رہے ۔۔کاش حد حرابہ کا اجراء ہمارے قانون میں ہوجائے ۔۔۔۔

لہذا زنا اور عزت لوٹنے میں فرق ہوتا ہے ، عزت لوٹنے والے پہ حد حرابہ لگانے کے لیے چار گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جیسے ہی کیس ثابت ہوجائے تواسی وقت اس سخت سزاء کا نفاذ کردیا جاتا ہے حتی کہ اگر عزت نہ بھی لوٹی ہو صرف عورت کو اسکی عزت لوٹنے کے لیے پکڑا ہی ہو تب بھی یہ سزاء نافذ ہوتی ہے۔۔۔۔۔

میرے مولا ہر ایک کی ماں بہن بیٹی کی عزت و عصمت کی حفاظت فرما اور ہماری ماں بہنوں و بیٹیوں کی عزتوں کی بھی حفاظت فرما اور ہمارے حکمرانوں کو توفیق عطاء فرما کہ وہ اسلامی سزاؤں کا نفاذ کرسکیں تو اس طرح آئے روز ان معصوم بچیوں کی عصمت سے کوئی نہیں کھیلے گا۔

آمین یا رب العالمین