شریعت وسیاست کے تقاضے، دور حاضر کے تناظر میں

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیراعلیٰ سواداعظم دہلی

روشن مستقبل دہلی

gmnaimi@gmail.com

یوں تو شریعت اپنے آپ میں ایک ایسا جامع نظام ہے جس میں سیاست بھی شامل ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ سیاست نظام شریعت کا ایک اہم جزو ہے،لیکن دور حاضر کی سیاست، شریعت سےجداگانہ نظام کے طور پر موجود ہے۔ موجودہ وقت میں کسی بھی جمہوری ملک میں اپنی قومی بقا وشناخت کے لیے اس نظام سے وابستگی اور حصول قوت ضروری سمجھی جاتی ہے۔جو قوم سیاسی نظام پر اپنی گرفت رکھتی ہے وہ اغیار کی سازشوں اور حملوں سے محفوظ رہتی ہے۔سیاسی محرومی کی صورت میں قومیں اغیار کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں اور ایسے وقت میں نہ ان کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں نہ ان کی مذہبی روایات !!

اس وقت ملکی سطح پر مسلم اُمّہ کو سیاسی اعتبار سے بے دست وپا کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں جابجا احتجاجات کا شور برپا ہے، کیا مرد کیا خواتین ہر جگہ حکومتی ظلم کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ حالات کے مقتضیات کے باعث جذبات کا تلاطم شباب پر ہے جس کے باعث بسا اوقات انسان اعتدال وتوسط برقرار نہیں رکھ پاتا ،اور ایسے امور میں ملوث ہو جاتا ہے جو بھلے ہی ان کی نگاہ میں خیر سگالی ورواداری کا ذریعہ بھر ہوتے ہیں لیکن شرعی نقطہ نگاہ سے ایسے امور سے اجتناب ضروری ہوتاہے۔ کسی بھی کلمہ گو انسان کے لیے سب سے مقدم اور اہم چیز شریعت ہے ۔جس پر چل کر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

تقاضائے شریعت:

رب تعالیٰ فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔(پارہ ۱؍البقرۃ، ۲۱)

اے لوگو!اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا،یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔

وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ(پارہ ۱۸؍المؤمنون:۱۱۷ )

اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے خدا کو پوجے جس کی اس کے پاس کوئی سند نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہے،بیشک کافروں کا چھٹکارا نہیں۔

ان الدین عند اللہ الاسلام۔(پارہ ۳؍سورہ آل عمران،آیت ۱۹) بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔

ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخٰسرین۔(پارہ ۳؍سورہ آل عمران،آیت ۸۵)

اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہے۔

سیدعالمﷺ فرماتے ہیں:

من رَضِي بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ۔(عن ابی سعید خدری،رواه أبوداود في ” السنن ” (رقم/1529)، والنسائي في ” السنن الكبرى ” (9/7)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جو اللہ تعالیٰ کے رب ہونے،اسلام کے دین اور محمد(ﷺ)کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا،اس کے لیے جنت واجب ہے۔یعنی اسلام کے تین بنیادی اصول ہیں:

🔹1؍اللہ تعالیٰ کی معرفت۔

🔹2؍دین کی معرفت۔

🔹3؍رسول اللہ ﷺ کی معرفت۔

معرفت ربی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان رکھنا۔اس کی ذات وصفات میں غیر کو شریک نہ کرنا۔ہرحال میں اس کی الوہیت وربوبیت پر ثابت قدم رہنا ہی اصل بندگی ہے۔کسی بھی حال میں،کسی بھی طرح اس کی ربوبیت میں کوتاہی نہ ہو۔خیر سگالی، رواداری یا کسی جذبہ دنیوی کی خاطر اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شرکت غیر کا تصور بھی نہ گزرے، یہی عبدیت ہے اور اس پر دمِ آخر تک قائم رہنا لازم وضروری ہے۔

معرفت دین۔ دنیا کے تمام ادیان ومذاہب میں اسلام ہی ایسا دین ہے جو اللہ تعالیٰ کا پسند فرمودہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔اسلامی تعلیمات جملہ ادیان پر فائق وغالب ہیں۔ اس کے احکامات سے روگردانی ذلت ورسوائی اور رب کی ناراضگی کا سبب ہے، اس کے ماسوا تمام ادیان ومذاہب تحریف وتبدیل کا شکار ہوکر رطب ویابس کا مجموعہ ہوگئے ہیں اب صرف اسی دین کی اتباع وپیروی میں ہی نجات ممکن ہے۔

معرفت رسول۔ آقائے کریمﷺ کو دل کی رضا ورغبت کے ساتھ اپنا ہادی وپیغمبر تسلیم کرنا۔آپ کی عزت وناموس کو سب سے بڑھ کر سمجھنا، آپ کے دوستوں کو دوست اور دشمنوں کو دشمن تصور کرنا۔آپ ﷺ کی ذات کو سب سے اعلیٰ وافضل تسلیم کرنا، آپ کے اعمال وافعال پر کسی طرح کی نکتہ چینی سے سخت پرہیز کرنا۔آپ کی محبت کا تمام محبتوں سے زیادہ ہونا ہی ایمان کی نشانی ہے۔

آیات قرآنیہ اور حدیث رسول ﷺ کی مختصر تشریح سے جو نکات ظاہر ہوتے ہیں ، ان کے بغیر بندہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہے۔اسلام ہی ایک مومن کے لیے سب سے اہم اور زندگی گزارنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔

تقاضائے سیاست:

یوں تو سیاست بھی جزو دین ہے، جس کے ذریعے اصلاح وفلاح کے کام انجام دیے جاتے ہیں لیکن دور حاضر میں نظام سیاست،نظام اسلامی، سے جداگانہ نظام کے طور موجود ہے اور اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔دنیا کے اکثر ممالک میں سیکولر نظام سیاست ہی موجود ہے اس نطام کی بنیاد جمہوریت(Democracy) پر رکھی گئی ہے۔سیکولر نظام کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس میں اچھائی وبرائی کے لیے اپنا کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔یہاں تعداد کی بنیاد پر قانون سازی کی جاتی ہے،اگر 51 فیصد لوگ کسی جھوٹ پر اکٹھے ہوجائیں تو سچ ہار جائے گا کیوں کی اس کی حمایت میں محض 49 فیصد لوگ ہیں اور اکثریت جھوٹ کی جانب !!

اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی جمہوریت کی سب سے بڑی خامی ہے کیوں کہ اسی ضابطے کے مطابق ایسے قوانین منظور کر دیے جاتے ہیں جو معاشرے کےلیے کتنے ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں،اس کی مثال میں زناکاری، جوے اور ہومو سیکس کے جواز کو پیش کیا جاسکتا ہے جو معاشرے کے لیے ناسور ہیں لیکن بدکردار لوگوں کی اکثریت کی وجہ سے اسے جائز قرار دے دیا گیا۔ لیکن سیکولر نظام کی ہمہ گیری و مقبولیت اور دیگر کوئی نظام نہ ہونے،یا مضبوط نہ ہونے کی صورت میں سیکولر نظام اقلیتوں کے لیے مفید اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ایک حد تک ضمانت دیتا ہے اس لیے جمہوری ممالک میں اس نطام کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے تاکہ اکثریت اپنی تعداد کے غرور میں اقلیت کے حقوق پامال نہ کر سکے۔اس لیے باضابطہ علم سیاسیات (political science) ایک شعبہ تعلیم کے طور پڑھایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کے بنیادی اصول وضوابط کو جان سکیں اور اسی کے مطابق اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں۔

مظاہرین سے ضروری گزارش:

بحیثیت مسلمان ہمارے لیے جہاں اپنے ایمان کی حفاظت ضروری ولازمی ہے، وہیں اپنی عزت دارانہ زندگی اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے موجودہ سیاست سے بھی وابستگی رکھنا ضروری ہے،تاکہ اغیار ہمارے دینی ودنیوی حقوق پامال نہ کرسکیں۔ لیکن سیکولر نظام سے وابستگی میں ہمیں حد درجہ احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔کیوں کہ بالآخر سیکولر نطام، نظام اسلامی کے مغائر اور اس کے مقابل ہے۔اس لیے سیکولر نظام میں رہتے ہوئے بھی اپنے معتقدات کا تحفظ شرط اول ہونا چاہیے۔ایسا نہ ہوکہ شہری حقوق کے تحفظ میں ہمارے دینی حقوق پامال ہوجائیں ۔جذبہ خیر سگالی کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم جملہ مذاہب کو آپس میں ضم کر دیں، ان کی تعلیمات کو یکساں قرار دیں !!

خیرسگالی اور رواداری کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عدل وانصاف کرنے میں مذہبی تفریق نہ کریں، مظلوم کا بلا لحاظ مذہب ساتھ دیں۔کسی کے مذہب پر طعن وتشنیع نہ کریں۔اس لیے جہاں جہاں بھی احتجاجات ہورہے ہیں وہاں کے افراد سے گزارش ہے کہ ان چیزوں کا خیال لازمی رکھیں:

🔸موجودہ لڑائی دستورِ ہند کے تحفظ کی لڑائی ہے اسے دستوری دائرے میں لڑیں،مذہبی رنگ دینے سے بالآخر ہمارا ہی نقصان ہے۔

🔹اس دستوری لڑائی میں جو بھی سیکولر ہندو، دلت ودیگر افراد آرہے ہیں ان کا خیر مقدم کریں لیکن خیر سگالی کے نام پرمذہبی پہچان کی ادلا بدلی نہ کریں، نہ انہیں ٹوپی پہنائیں اور نہ اپنے تِلک لگوائیں۔

🔸احتجاجی مجالس میں اہل وطن کا اجتماع دستور کی حفاظت اورموجودہ حکومت کی منووادی پالیسی کی مخالفت میں ہوا ہے۔یہی احتجاج کا مقصود اصلی ہے،ایسی مجالس کو سیاسی و دستوری امور تک محدود رکھنا ضروری ہے۔

🔹سیکولر ممالک میں جمہوری ومذہبی امور الگ ہوتے ہیں،اسے آپس میں خلط ملط نہ کریں۔

🔸اختلاط مذاہب کی صورت میں نقصان ہمیشہ اقلیت کا ہوتا ہے۔

🔹بھارت کے جملہ مذاہب واقوام کے مابین قدر مشترک “دستورِ ہند اور انسانیت” ہے۔اسی کو مقدم رکھیں دیگر کسی بھی چیز کو قدر مشترک بنانے سے پرہیز کریں۔

🔸کسی مشترکہ سیاسی واحتجاجی مجلس میں مذہبی امور انجام دینا ہمارے لیےباعث ناکامی ہوگا۔کیوں کہ ہر مذہب کے رسوم ورواج الگ الگ ہیں تو کسی فرد کو دوسرے مذہبی امورپر آمادہ کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔

🔹احتجاج صرف سیاسی امور تک محدود رکھیں اور جملہ انصاف پسند اہل وطن مل کر دستورِ ہند کی حفاظت کریں تاکہ ملک میں مقیم جملہ شہریوں کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔

25 جمادی الاول 1441 ھ

21 جنوری 2020 بروز منگل