وَسْـــئَـلْهُمْ عَنِ الۡـقَرۡيَةِ الَّتِىۡ كَانَتۡ حَاضِرَةَ الۡبَحۡرِۘ اِذۡ يَعۡدُوۡنَ فِى السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِيۡهِمۡ حِيۡتَانُهُمۡ يَوۡمَ سَبۡتِهِمۡ شُرَّعًا وَّيَوۡمَ لَا يَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِيۡهِمۡ ۛۚ كَذٰلِكَ ۛۚ نَبۡلُوۡهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡسُقُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 163
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَسْـــئَـلْهُمْ عَنِ الۡـقَرۡيَةِ الَّتِىۡ كَانَتۡ حَاضِرَةَ الۡبَحۡرِۘ اِذۡ يَعۡدُوۡنَ فِى السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِيۡهِمۡ حِيۡتَانُهُمۡ يَوۡمَ سَبۡتِهِمۡ شُرَّعًا وَّيَوۡمَ لَا يَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِيۡهِمۡ ۛۚ كَذٰلِكَ ۛۚ نَبۡلُوۡهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡسُقُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ان سے اس بستی کے متعلق سوال کیجیے جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب وہ سنیچر کے دن تجاوز کرتے تھے، جب سنیچر کے دن مچھلیاں تیرتی ہوئی ان کے پاس آتی تھیں اور جب سنیچر کا دن نہ ہوتا تو وہ ان کے پاس (اتنی کثرت سے) اس طرح نہیں آتی تھیں، ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم ان کو آزمائش میں ڈالتے تھے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور ان سے اس بستی کے متعلق سوال کیجیے جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب وہ سنیچر کے دن تجاوز کرتے تھے، جب سنیچر کے دن مچھلیاں تیرتی ہوئی ان کے پاس آتی تھیں اور جب سنیچر کا دن نہ ہوتا تو وہ ان کے پاس (اتنی کثرت سے) اس طرح نہیں آتی تھیں، ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم ان کو آزمائش میں ڈالتے تھے۔ ” (163)
نافرمانی پر اصرار کرنے والے اسرائیلیوں کو بندر بنانے کی تفصیل
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ قوم حضرت داود (علیہ السلام) کے زمانہ میں ” ایلہ ” میں آباد تھی، یہ شہر مدینہ اور شام کے درمیان ساحل سمندر پر واقع تھا، اس جگہ سمندر میں سال کے ایک مہینہ میں اتنی کثرت سے مچھلیاں آتی تھیں کہ پانی دکھائی نہیں دیتا تھا اور باقی مہینوں میں ہفتہ کے دن اس میں بہت مچھلیاں آتی تھیں، ان لوگوں نے مختلف جگہ حوض کھودے اور سمندر سے نالیاں نکال کر ان حوضوں سے ملا دیں، ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں چلی جاتیں اور وہ اتوار کے دن ان کا شکار کرلیتے۔ بنو اسرائیل کا ہفتہ کے دن مچھلیوں کو حوضوں میں مقید کرلینا، یہی ان کا حد سے تجاوز کرنا تھا۔ وہ ایک بڑے لمبے عرصے تک اس نافرمانی میں مشغول رہے، نسل در نسل ان کی اولاد بھی اس میں ملوث رہی۔ خدا کا خوف رکھنے والے کچھ لوگ منع کرتے تھے، کچھ اس کو برا جانتے تھے اور اس خیال سے منع نہیں کرتے تھے کہ یہ باز آنے والے نہیں ہیں، نافرمان لوگ کہتے تھے کہ ہم اتنے بڑے عرسہ سے یہ کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان مچھلیوں میں اضافہ فرما رہا ہے، مانعین کہتے تھے کہ تم دھوکے میں نہ آؤ، ہوسکتا ہے تم پر عذاب نازل ہوجائے۔ (تفسیر کبیر ج 1، ص 372، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1398 ھ)
اس شہر میں رہنے والے ستر ہزار نفوس تھے۔ اور ان کو منع کرنے والے بارہ ہزار تھے، جب مجرموں نے ان کی نصیحت قبول کرنے سے انکار کردیا، تو مانعین نے کہا بہ خدا ہم ایک علاقہ میں نہیں رہٰں گے، انہوں نے شہر کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی، اور ان سے الگ رہنے لگے اور کئی سال اسی طرح گزر گئے، پھر معصیت پر ان کے مسلسل اصرار کی وجہ سے حضرت داود (علیہ السلام) نے ان پر لعنت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا غضب فرمایا ایک دن منع کرنے والے اپنے دروازے سے نکلے تو دیکھا مجرمین میں سے کوئی نہیں نکلا، جب کافی دیر ہوگئی تو وہ دیوار پھاند کر گئے، دیکھا تو وہ تمام لوگ بندر بن چکے تھے، ایک قول یہ ہے کہ جوان بندر بن گئے تھے اور بوڑھے خنزیر بن گئے تھے، وہ دوسروں کو پہچان رہے تھے اور دوسرے ان کو نہیں پہچان رہے تھے۔ وہ تین دن تک اس حال میں روتے رہے، ھر سب ہلاک ہوگئے اور کوئی مسخ شدہ شخص تین دن سے زیادہ نہیں رہا اور نہ ان کی نسل چلی۔ (تفسیر خازن ج 1، ص 60، مطبوعہ دار الکتب العربیہ پشاور)
اس واقعہ کے بیان میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزہ کا اظہار ہے کیونکہ آپ امی تھے۔ آپ نے اعلان نبوت سے پہلے نہ کسی چیز کو پڑھا تھا نہ لکھا تھا اور نہ علماء اہل کتاب کی مجلس میں رہے تھے، اس کے باوجود آپ نے اس واقعہ کو بیان فرمایا جو ان کے علماء کے درمیان معروف تھا۔ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے جو کچھ بیان فرمایا وہ وحی الٰہی ہے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہفتہ کے دن شکار کرنے سے منع کردیا تھا تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ سمندر میں ہفتہ ہی کے دن بکثرت مچھلیاں آتی تھیں، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش تھی اور بنو اسرائیل کا امتحان تھا کہ وہ مچھلیوں کی بہتات دیکھ کر پھسل جاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے حکم ماننے پر جمے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون : کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ (محض) اس کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی (العنکبوت :2) ۔ اس امتحان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فرمانبرداروں اور نافرمانوں کو متمیز کردیتا ہے۔
اس آیت کے دیگر مباحث کہ موجودہ بندر، ان ہی بندروں کی نسل سے ہیں یا نہیں اور تماسخ اور تناسخ میں فرق کے لیے البقرہ :65کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ یہ قصہ یہودیوں کے درمیان معروف اور مشہور تھا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کا علم اللہ تعالیٰ کی وحی سے ہوا، یہاں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ وہ قوم ہے جس نے اتنی دیدہ دلیری سے اتنا زبردست گناہ کیا تھا اور ایسی کھلی نافرمانی کی تھی تو اگر یہ لوگ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات اور صاف صاف نشانیاں دیکھنے کے باوجود آپ کی نبوت کا انکار کریں اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو ان سے کیا بعید ہے !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 163