تنقید

ایک وہ وقت تھا۔۔۔۔۔ جب کسی پر تنقید کرنا اور وہ بھی بےجا ہر کسی کا کام نہ تھا۔۔ کسی بڑی شخصیت پر خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی تنقید کرنا۔۔۔۔ اس سے لوگ ہچکچاتےتھے۔ اپنی کم علمی و کم مائیگی کا احساس’ ادب و احترام نیز رتبے کا لحاظ اورپاس رہتا تھا۔۔۔۔ اور کچھ خوف خدا بھی کہ یہ ” تنقید برائے تنقید” کئی گناہوں کا باعث بھی بن جاتی ہے۔۔۔

*اب وہ دور ہے ہر شخص خواہ چھوٹا ہو یا بڑا خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنی ذات میں مکمل شخصیت ہے۔ کم عمر کو بزرگ پر ‘ جاہل کو عالم پر اور بے نمازی و تارک صوم کو امام مسجد یہانتکہ مفتی پر تنقید کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔۔ بقول ہمارے ایک استاد محترم کے دور حاضر میں سب سے مظلوم موضوع، گفتگو کے لیے دو ہیں ایک مذہب دوسرا سیاست۔۔۔ جس پر پر کس و ناکس تجزیہ نگار بنا ہوا ہے۔۔

مثبت تنقید اور تنقید برائے اصلاح بلاشبہ عمل میں بہتری لے کر آتی ہیں۔۔ لیکن جب تنقید برائے تذلیل ہو جسکامقصد دوسرے کی عزت نفس کو مجروح کرنا ہو تو وہ معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن جایا کرتی ہے۔۔۔۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ

♢ اخلاق و رواداری ختم ہوچلی ہے۔

♢ عاجزی و انکساری غائب ہوتی جارہی ہے۔

♢ اپنی خامیوں اور عیبوں سے ♢ چشم پوشی اور دوسرے کی خامیوں پر چشم کشا ہے۔۔

♢ انا’ جھوٹ’ غیبت’ دل آزاری و دھوکہ کے میک اپ سے ہم نے خود کو تیار کر رکھا ہے۔

♢ بڑائی کا لباس زیب تن کیئے’ خود پسندی کی وہ عینک لگائے ہوئے ہیں جس میں صرف ہم ہی نظر آتے ہیں *” سب سے آگے’ سب سے اوپر”*

کیا ہمارے ٹاک شوز یہ منظر پیش نہیں کرتے؟؟ اور انکا دیکھا دیکھی عوام میں یہ سب کچھ رائج ہوتا جارہا ہے۔۔۔

ہم میں سے کون لاعلم ہے؟؟؟ کہ یہ گناہ کے کام ہیں جن پر سخت وعیدیں ہیں۔۔۔ لعنت اللہ کا مصداق کون ہے؟؟ یاکل لحم اخیہ میتا کس گناہ کے لیے ہے؟؟ مختالا فخورا کی ناپسندیدگی بھی ہم سے مخفی نہیں۔۔ مگر پھر بھی ہم میں سے ہر دوسرا شخص ان میں ملوث ہے بطریق تنقید بھی اور اسکے علاوہ بھی۔۔۔۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں۔۔۔۔۔ حسن اخلاق کی کیا جزا ہے’ سچ جنت کی راہ ہے’ باادب بانصیب اور عاجزی تو اللہ پاک کو بہت ہی پسند ہےاپنے بندوں میں کیونکہ وہ ذات عالی خود عاجز نہیں۔۔۔

کاش!!!!

ہم دوسروں پر بلاوجہ تنقید کر کے ان گناہوں میں ملوث ہونے کے بجائے سلامتی اور تقوی کی راہ اختیار کریں۔۔۔ لہذا کوئی مذہبی شخص ہو یا سیاسی’دوست ہو یا دشمن۔۔۔ زبان کو بےلگام کرتے ہوئے یہ نہ کہیں وہ ایسا ہے وہ ویسا ہے۔۔۔۔ بلکہ خوب سوچ کر زبان کھولیں۔

اور سب سے پہلے یہ سوچیں کہ

میں کیسا ہوں؟؟ اپنی ذات میں۔۔۔۔ رب کی نظر میں۔۔۔۔

بقول بہادر شاہ ظفر۔۔۔

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

منقول