کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 9 رکوع 12 سورہ الاعراف آیت نمبر172 تا 181
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ-قَالُوْا بَلٰىۚۛ-شَهِدْنَاۚۛ-اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ(۱۷۲)
اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں (ف۳۳۵) سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے (ف۳۳۶) کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی(ف۳۳۷)
(ف335)
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی ا ور ان سے عہد لیا ۔ آیات و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذُرِّیَّت نکالنا اس سلسلہ کے ساتھ تھا جس طرح کہ دنیا میں ایک دوسرے سے پیدا ہوں گے اور انکے لئے ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی ۔
(ف336)
اپنے اوپر اور ہم نے تیری ربوبیت اور وحدانیت کا اقرار کیا ، یہ شاہِد کرنا اس لئے ہے ۔
(ف337)
ہمیں کوئی تنبیہ نہیں کی گئی تھی ۔
اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْۚ-اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ(۱۷۳)
یا کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا اور ہم ان کے بعد بچے ہوئے(ف۳۳۸) تو کیا تو ہمیں اس پر ہلاک فرمائے گا جو اہل باطل نے کیا (ف۳۳۹)
(ف338)
جیسا انہیں دیکھا ان کے اِتّباع و اقتداء میں ویسا ہی کرتے رہے ۔
(ف339)
یہ عذر کرنے کا موقع نہ رہا جب کہ ان سے عہد لے لیا گیا اور ان کے پاس رسول آئے اور انہوں نے اس عہد کو یاد دلایا اور توحید پر دلائل قائم ہوئے ۔
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۱۷۴)
اور ہم اسی طرح آیتیں رنگ رنگ (تفصیل)سے بیان کرتے ہیں(ف۳۴۰) اور اس لیے کہ کہیں وہ پھر آئیں (ف۴۱)
(ف340)
تاکہ بندے تدبُّر و تفکُّر کرکے حق و ا یمان قبول کریں ۔
(ف341)
شرک و کُفر سے توحید و ا یمان کی طرف اور نبی صاحبِ معجزات کے بتانے سے اپنے عہدِ میثاق کو یاد کریں اور اس کے مطابق عمل کریں ۔
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(۱۷۵)
اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں(ف۳۴۲) تو وہ ان سے صاف نکل گیا (ف۳۴۳)توشیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہوگیا
(ف342)
یعنی بلعم باعور جس کا واقعہ مفسِّرین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے جبّارین سے جنگ کا قصد کیا اور سر زمینِ شام میں نُزول فرمایا تو بلعم باعور کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ حضرت موسٰی علیہ السلام بہت تیز مزاج ہیں اور ان کے ساتھ کثیر لشکر ہے وہ یہاں آئے ہیں ہمیں ہمارے بلاد سے نکالیں گے اور قتل کریں گے اور بجائے ہمارے بنی اسرائیل کو اس سر زمین میں آباد کریں گے ، تیرے پاس اسمِ اعظم ہے اور تیری دعا قبول ہوتی ہے تو نکل اور اللہ تعالٰی سے دعا کر اللہ تعالٰی انہیں یہاں سے ہٹا دے ۔ بلعم باعور نے کہا تمہارا بُرا ہو حضرت مُوسٰی علیہ السلام نبی ہیں اور ان کے ساتھ فرشتے ہیں اور ا یمان دار لوگ ہیں ، میں کیسے ان پر دعا کروں ؟ میں جانتا ہوں جو اللہ تعالٰی کے نزدیک ان کا مرتبہ ہے اگر میں ایسا کروں تو میری دنیا و آخرت برباد ہو جائے گی مگر قوم اس سے اصرار کرتی رہی اور بہت اِلحاح و زاری کے ساتھ انہوں نے اپنا یہ سوال جاری رکھا تو بلعم باعور نے کہا کہ میں اپنے ربّ کی مرضی معلوم کر لوں اور اس کا یہی طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا پہلے مرضی الٰہی معلوم کر لیتا اور خواب میں اس کا جواب مل جاتا چنانچہ اس مرتبہ بھی اس کو یہی جواب ملا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے ہمراہیوں کے خلاف دعا نہ کرنا ، اس نے قوم سے کہہ دیا کہ میں نے اپنے ربّ سے اجازت چاہی تھی مگر میرے ربّ نے ان پر دعا کرنے کی مُمانعت فرما دی تب قوم نے اس کو ہدیئے اور نذرانے دیئے جو اس نے قبول کئے اور قوم نے اپنا سوال جاری رکھا تو پھر دوسری مرتبہ بلعم باعور نے ربّ تبارَک وتعالٰی سے اجازت چاہی اس کا کچھ جواب نہ ملا ، اس نے قوم سے کہہ دیا کہ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہ ملا قوم کے لوگ کہنے لگے کہ اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی منع فرماتا اور قوم کا اِلحاح و اصرار اور بھی زیادہ ہوا حتٰی کہ انہوں نے اس کو فتنہ میں ڈال دیا اور آخر کار وہ بددعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھا تو جو بددعا کرتا اللہ تعالٰی اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا بجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اس کی زبان پر آتا تھا ۔ قوم نے کہا اے بلعم یہ کیا کر رہا ہے ؟ بنی اسرائیل کے لئے دعا کرتا ہے ہمارے لئے بددعا ، کہا یہ میرے اختیار کی بات نہیں ، میری زبان میرے قبضہ میں نہیں ہے اور اس کی زبان باہر نکل پڑی تو اس نے اپنی قوم سے کہا میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوگئیں ۔ اس آیت میں اس کا بیان ہے ۔
(ف343)
اور ان کا اِتّباع نہ کیا ۔
وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُۚ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِۚ-اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْؕ-ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۱۷۶)
اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اُسے اٹھالیتے(ف۳۴۴) مگر وہ تو زمین پکڑگیا (ف۳۴۵)او ر اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے (ف۳۴۶) یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں
(ف344)
اور بلند درجہ عطا فرما کر اَبرار کی منازِل میں پہنچاتے ۔
(ف345)
اور دنیا کامَفتوں ہوگیا ۔
(ف346)
یہ ایک ذلیل جانور کے ساتھ تشبیہ ہے کہ دنیا کی حِرص رکھنے والا اگر اس کو نصیحت کرو تو مفید نہیں , مبتلائے حرص رہتا ہے ، چھوڑ دو تو اسی حرص کا گرفتار ۔ جس طرح زبان نکالنا کُتّے کی لازمی طبیعت ہے ایسی ہی حرص ان کے لئے لازم ہوگئی ہے ۔
سَآءَ مَثَلَا-ﰳالْقَوْمُ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنْفُسَهُمْ كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ(۱۷۷)
کیا بُری کہاوت ہے ان کی جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور اپنی ہی جان کا بُرا کرتے تھے
مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِیْۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۱۷۸)
جسے اللہ راہ دکھائے تو وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کرے تو وہی نقصان میں رہے
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﳲ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۷۹)
اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی (ف۳۴۷) وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں (ف۳۴۸) اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں (ف۲۴۹) اور وہ کان جن سے سنتے نہیں (ف۳۵۰) وہ چوپایوں کی طرح ہیں (ف۳۵۱) بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ (ف۳۵۲) وہی غفلت میں پڑے ہیں
(ف347)
یعنی کُفّارجو آیاتِ الٰہیہ میں تدبّر سے اِعراض کرتے ہیں ، ان کا کافِر ہونا اللہ کے علمِ ازلی میں ہے ۔
(ف348)
یعنی حق سے اعراض کرکے آیاتِ الٰہیہ بھی تدبّر کرنے سے محروم ہوگئے اور یہی دل کا خاص کام تھا ۔
(ف349)
راہِ حق و ہدایت اور آیاتِ الٰہیہ اور دلائلِ توحید ۔
(ف350)
موعِظت و نصیحت کو بگوش قبول اور باوجود قلب و حواس رکھنے کے وہ امورِ دین میں ان سے نفع نہیں اٹھاتے لہٰذا ۔
(ف351)
کہ اپنے قلب و حواس سے مَدارکِ علمیّہ و معارِفِ ربّانیّہ کا اِدراک نہیں کرتے ہیں ۔کھانے پینے کے دُنیوی کاموں میں تمام حیوانات بھی اپنے حواس سے کام لیتے ہیں ، انسان بھی اتنا ہی کرتا رہا تو اس کو بہائِم پر کیا فضیلت ۔
(ف352)
کیونکہ چوپایہ بھی اپنے نفع کی طرف بڑھتا ہے اور ضَرر سے بچتا اور اس سے پیچھے ہٹتا ہے اور کافِر جہنّم کی راہ پر چل کر اپنا ضَرر اختیار کرتا ہے تو اس سے بدتر ہوا ۔ آدمی روحانی ، شہوانی ، سماوی ، ارضی ہے جب اس کی روح شہوات پر غالب ہو جاتی ہے تو ملائکہ سے فائِق ہو جاتا ہے اور جب شہوات روح پر غلبہ پاجاتی ہیں تو زمین کے جانوروں سے بدتر ہو جاتا ہے ۔
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۸۰)
اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام (ف۳۵۳) تو اسے ان سے پکارو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے نکلتے ہیں (ف۳۵۴) وہ جلد اپنا کیا پائیں گے
(ف353)
حدیث شریف میں ہے اللہ تعالٰی کے ننانوے نام جس کسی نے یاد کر لئے جنّتی ہوا ۔ عُلَماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے اِلٰہیہ ننانوے میں منحصَر نہیں ہیں ۔ حدیث کا مقصود صرف یہ ہے کہ اتنے ناموں کے یاد کرنے سے انسان جنّتی ہو جاتا ہے ۔
شانِ نُزول : ابو جہل نے کہا تھا کہ محمّد (مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعوٰی تو یہ ہے کہ وہ ایک پروردگار کی عبادت کرتے ہیں پھر وہ اللہ اور رحمٰن دو کو کیوں پکارتے ہیں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور اس جاہِل بے خِرَد کو بتایا گیا کہ معبود تو ایک ہی ہے نام اس کے بہت ہیں ۔
(ف354)
اس کے ناموں میں حق و استِقامت سے نکلنا کئی طرح پر ہے ۔
مسائل : ایک تو یہ کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا جیسے کہ مشرکین نے اِلٰہ کا لات اور عزیز کا عُزّٰی اور منان کا منات کر کے اپنے بُتوں کے نام رکھے تھے ، یہ ناموں میں حق سے تجاوز اور ناجائز ہے ، دوسرے یہ کہ اللہ تعالٰی کے لئے ایسا نام مقرّر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو یہ بھی جائز نہیں جیسے کہ سخی یا رفیق کہنا کیونکہ اللہ تعالٰی کے اسماء توقیفیہ ہیں ۔ تیسرے حسنِ ادب کی رعائیت کرنا تو فقط یا ضار ، یا مانِع ، یا خالِق القِردۃ کہنا جائز نہیں بلکہ دوسرے اسماء کے ساتھ ملا کر کہا جائے گا یا ضار ، یا نافِع اور یا مُعطی ، یا خالِقَ الخَلق ۔ چوتھے یہ کہ اللہ تعالٰی کے لئے کوئی ایسا نام مقرّر کیا جائے جس کے معنٰی فاسِد ہوں یہ بھی بہت سخت ناجائز ہے جیسے کہ لفظ رام اور پرماتما وغیرہ ۔ پنجم ایسے اسماء کا اطلاق جن کے معنٰی معلوم نہیں ہیں اور یہ نہیں جانا جاسکتا کہ وہ جلالِ الٰہی کے لائق ہیں یا نہیں ۔
وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ۠(۱۸۱)
اور ہمارے بنائے ہوؤں میں ایک گروہ وہ ہے کہ حق بتائیں اور اس پر انصاف کریں(ف۳۵۵)
(ف355)
یہ گروہ حق پژوہ عُلَماء اور ہادیانِ دین کا ہے ۔ اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ہر زمانہ کے اہلِ حق کا اِجماع حُجّت ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی زمانہ حق پرستوں اور دین کے ہادیوں سے خالی نہ ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک گروہ میری اُمّت کا تا قیامت دینِ حق پر قائم رہے گا اس کو کسی کی عداوت و مخالفت ضَرر نہ پہنچا سکے گی ۔