حضور اقدس ﷺ کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا
حضور اقدس ﷺ کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا
حالانکہ حضور اقدس ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقینا با خبر تھے۔ اسی لئے تو اپنے جانثار صحابۂ کرام کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ کے معاملے میں فرمایا وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی :’’ خدا کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا ‘‘ اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ حضور نے اس جملے کو’’ وَ اللّٰہِ‘‘ یعنی ’’خدا کی قسم ‘‘ سے مؤکد فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کو حضرت عائشہ کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لئے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرماکر اپنے یقین کامل کا اظہار فرمارہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی خدا کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کے سامنے خدا کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لئے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ :’’کون ہے جو میری مدد کرے؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی ‘‘حضور اقدس ﷺ کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، اس سے انتقام لینے کیلئے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے لیکن حضور نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر حضور ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کردیتے، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ حضور نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کیلئے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لئے حضور اقدس ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔
دور حاضر کے منافقین صرف اسی بات کی رٹ لگاتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان نہ کرتے ہوئے سکوت کیوں اختیار کیا ۔ اس کا جواب ضمناً تو اوپر بیان ہو چکا کہ اگر آپ برأت کا اعلان فرماتے تو منافقین ماننے والے نہ تھے بلکہ دیگر الزامات تراشتے ۔اس لئے حضور نے سکوت فرمایا ۔ اور ایک اہم مصلحت یہ تھی کہ حضور برأت کا اعلان کریں وہ اتنا مؤثر نہ ہوگا جتنا کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے اعلان برأت کا اثر ہوگا ۔ اس کو ایک آسان مثال سے سمجھیں کہ ایک بادشاہ کی کوئی چیز گم ہوگئی ،کچھ مخالف لوگوں نے چوری کا الزام بادشاہ کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے پر لگایا۔ حالانکہ کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا بے قصور تھا۔ وزیر اعلیٰ کو اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا یقین کے درجہ میں علم ہے ۔ لیکن وقت کا تقاضا اور مصلحت حالات یہ ہے کہ وزیر خاموش ہی رہے ۔ کیونکہ اگر وزیر اٹھ کر اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا اعلان کرے گا تو الزام لگانے والے مخالفین کا گروہ یہی کہے گا کہ اپنے بیٹے کی محبت اور طرفداری میں وزیر اعلیٰ اپنے عہدے اور منصب کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ لہذا وزیر اعلیٰ سکوت اختیار کرے یہی بہتر و مناسب ہے، چاہے تہمت کی آندھی کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوجائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ صبر کرے اور خاموش رہ کر اس وقت کا انتظار کرے کہ حق بات واضح ہو کر سامنے آجائے ۔ا چانک ایک دن بادشاہ سلامت کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کے فرزند ارجمند پر چوری کا جو الزام لگایا گیا ہے اس میں وہ بری اور بے قصور ہے ۔ وزیر زادہ دیانتدار اور نیک بخت ہے ۔ ایسے نیک بخت پر چوری کا الزام لگانا ، ظلم شدید اور گناہ عظیم ہے ۔ ہم وزیر زادہ کو اس چوری کی تہمت سے باعزت بری کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم نافذ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسے نیک بخت اور دیانتدار پر غلط الزام لگاتے ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ اس اعلان کے بعد الزام لگانے والوں کو بادشاہ کوڑے لگوائے اور کوڑے لگانے کا کام اپنے وزیر کے ہاتھ سے انجام دلوائے ۔
اب قارئین کرام ،سوچیں ! وزیر زادہ کی عزت کس میں بڑھی ؟ اگر وزیر اپنے بیٹے کی برأت کا اعلان کرتا ہے تو اس میں وہ عزت و شان حاصل نہ ہوتی جو عزت اور مرتبہ بادشاہ کے اعلان سے حاصل ہوا ۔ ٹھیک اسی مثال کو حضرت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعہ میں ذہن نشیں کرکے سوچیں کہ حضور اقدس ﷺ کی طرف سے برأت و عصمت کے اعلان میں منافقین کو طرفداری اور پاسداری کے الزام کی گنجائش تھی ۔ لیکن جب اللہ تبارک و تعالی نے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں فرمادیا، تو اب کسی کو سسکنے کی ، کھسکنے کی ، بدکنے کی، رینگنے کی گنجائش ہی نہ رہی ۔
اگر حضور اقدس ﷺ اپنی طرف سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برات کا اعلان فرماتے تو وہ حدیث کہلاتی اور یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں دیگر واقعات کی طرح شمار کیا جاتا ۔ حدیث کے متن (عبارت ) کی نماز میں تلاوت نہیں ہوتی لیکن اللہ نے حضرت عائشہ کی برات کا قرآن مجید میں اعلان فرمایا۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی عظمت قیامت تک نماز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ظاہر ہوتی رہے ۔ عوام مسلمین میں دینی تعلیم و معلومات حاصل کرنے کی رغبت اور شوق دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ بڑی مشکل سے ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم لوگ اپنی اولاد کو دے پاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں حدیث و فقہ کے علم کی طرف بہت کم افراد مائل ہیں۔ اگر برأت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بذریعہ حدیث ہوتی تو اتنی شہرت و عزت نہ ملتی جتنی کہ قرآن مجیدسے برأت ہونے پر حاصل ہوئی ۔
چھوٹا سا دیہات ہوگا ، چاہے اس میں مسلمان کے دور چار ہی مکان ہوں لیکن وہاں کسی نہ کسی گھر میں قرآن مجید ضرور ہوگا ۔ لیکن وہاں کتب احادیث کا ہونا ناممکن ہے ۔بلکہ اکثر شہروں میں جہاں دار العلوم نہیں ہوتے وہاں بخاری شریف ، مسلم شریف و دیگر کتب احادیث کا ہونا نا ممکن ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں کلام مجید کا نسخہ موجود نہ ہو ۔ بر عکس اس کے کتب احادیث بہت کم دستیاب ہیں۔ تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعہ برأت حضرت عائشہ کا جو اعلان فرمایا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اپنے محبوب اعظم ﷺ کی زوجہ محترمہ کی شان و شوکت کا ڈنکا قیامت تک بجتا رہے ۔
اگر بجائے قرآن مجید احادیث سے حضرت عائشہ کی برأت و عصمت کا اعلان ہوتا، تو منکرین عظمت کو تنقیص کیلئے ایک راہ یہ ملتی کہ وہ اپنی ذہنی اختراع سے یہ کہہ دیتے کہ ’’ یہ حدیث ضعیف ہے ‘‘ جیسا کہ دور حاضر کے منافقین وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، تبلیغی لوگ عظمت و تعظیم مصطفی ﷺ کے جواز و ثبوت کی احادیث سے عوام کو بے التفات و بے اعتماد کرنے کیلئے بلا کسی ثبوتِ علم اسماء الرجال کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ حدیث ضعیف ہے ‘‘ لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت کو ضعیف کہنے کی کسی میں جرأت نہیں ۔ اور اسی حکمت کے تحت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔