تیلیلگانا

تیلی لگانا ہمارے ہاں فتنہ باز لوگوں کیلیے بولا جاتا ہے، انہی فتنہ باز لوگوں میں ماروی سرمد نامی عورت بھی ہے ۔جس کے آرٹیکلز، تجزیے اور مختلف سرگرمیاں اس کا واضح ثبوت ہیں، بالخصوص تاریخ بھی اس بات کی موید ہے، جب ماضی میں ٹاک شوز پر مختلف شخصیات کے ساتھ اسی خاتون نے بالقصد لڑائی جھگڑا کیا اور مد مقابل کی اخلاقی غیرت کو چینلج کر کے لڑائی کا سا ماحول بنایا اور sympathy (ہمدردی )حاصل کرنے کی کوشش کی۔
حال ہی میں کچھ اسی طرح کا حادثہ پھر ہوا، جس میں مشھور و معروف رائیٹر خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد ایک ٹاک شو میں آمنے سامنے تھے ۔ ذیل میں اس حادثہ کی مکمل صورت میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں

پروگرام کے آغاز میں خلیل الرحمن قمر نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت شائستگی سے کہا:
’’پہلے دونوں پینلسٹ کو میری طرف سے بصد احترام سلام اور آپ دونوں سے گزارش ہے کہ جب آپ دونوں بات کر رہے تھے تو میں نے بات نہیں کی، جب میں بات کر رہا ہوں للہ بیچ میں مت بولیے گا تاکہ پتا چلے پڑھے لکھے لوگ بات کر ہے ہیں، آپ کے پاس ایک اوپینین تھا جو میں سنا اب میں آپ کو اپنا اوپینین سنانے جا رہا ہوں۔‘‘
ان کلمات کی ادائیگی کے چند سیکنڈ بعد ماروی سرمد نے خلیل الرحمن قمر کی بات ٹوکتے ہوئے کہا:
’’یہ بڑا نیک ہے‘‘ یا اسی قسم کا کوئی بے ہودہ جملہ ،جس میں لہجہ کا تاثر نہایت برا تھا۔
یہی پر بس نہیں ، ابھی خلیل الرحمن کی گفتگو جاری تھی کہ اس دوران پھر بات ٹوکتے ہوئے یوں گویا ہوئیں:
’’ یہ بک بک کرتا جا رہا ہے‘‘
اب بتائیں خلیل الرحمن سمیت وہ کون ہو گا جو اس قسم کی بے ہودگی کو Tolerate کرے گا۔ خصوصا جب کوئی طعنے دے کر آپ کی غیرت کو چیلنج کرے ۔
میں یہاں ہرگز گالم گلوچ کا جواز پیش نہیں کر رہا ، مگر یہ کس قدر نا انصافی ہوگی کہ ہم اس ماحول کا سبب بننے والے رویے کو کلین چٹ دے دیں ۔

خلیل الرحمن قمر نے ایک مخصوص کردار کی حامل معین عورت کو بے حیا کہ دیا تو نام نہاد عورتوں کے حقوق کی علمبردار سیکولر عورتیں اسے پوری نسوانیت پر حملہ سمجھ کر مردوں کی تذلیل کا بازار گرم کر دیتی ہیں ۔ کیا یہ طبقہ مردوں کو اس بات کی اجازت دے گا کہ جس قسم کے الزام آپ کسی مرد پر لگاتی ہیں انہیں پوری جنس مرد کے خلاف سمجھ کر مرد عورتوں کی تذلیل کرنا شروع کر دیں؟ ۔
بالکل بھی نہیں یہ لوگ اس کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے تو سوال یہ ہے کہ پھر یہی سلوک مردوں کے حق میں بھی روا رکھیں۔۔۔۔۔

چونکہ بات پاکستانی معاشرہ کے متعلق ہے تو جہاں تک میرا بلکہ ہم سب کا مشاہدہ ہے یہاں پر عورتوں کو حتی الامکان عزت و احترام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بسوں،ویگنوں،رکشوں اور مختلف آمد و رفت کے ذرائع میں ان کیلیے مخصوص نشستیں ہوتی ہیں۔ پٹرول پمپ پر مردوں کی لمبی قطار ہونے کے باوجود جس موٹر سائیکل پر مرد کے ساتھ عورت سوار ہو اسے لائن کی پابندی سے مستثنی کر کے سب سے پہلے پٹرول دیا جاتا ہے۔ حتی کہ اگر آپ والدہ ،بہن یا زوجہ کی معیت میں موٹر سائیکل پر ٹریفک کے کسی رول (مثلا ہیلمٹ پہننا) کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں تو بعض اوقات ٹریفک وارڈن آپ کو relief دے دیتا ہے ۔

اس طرح اور بہت سی مثالیں آپ کو اپنے ارد گرد مل جائیں گیں البتہ اگر کہیں ان کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے تو اس میں وہ منفرد نہیں ،اس معاشرہ میں مردوں کے حقوق کا بھی استحصال ہو رہا ہے بلکہ زیادہ ہو رہا ہے ۔

المختصر یہ طبقہ بس تیلی لگانے کیلیے بیٹھا ہے ، اصل مسئلہ جو Domestic violence کا ہے اس کا حل تلاش کرنے کی طرف اس طبقہ کی بالکل بھی توجہ نہیں، بلکہ ان کا سارا Focus مادر پدر آزادی کی طرف ہے ۔

فقیرالمصطفی