أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذۡ يُغَشِّيۡكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنۡهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيۡكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمۡ بِهٖ وَيُذۡهِبَ عَنۡكُمۡ رِجۡزَ الشَّيۡطٰنِ وَلِيَرۡبِطَ عَلٰى قُلُوۡبِكُمۡ وَيُثَبِّتَ بِهِ الۡاَقۡدَامَؕ ۞

ترجمہ:

(یاد کرو) جب اللہ اپنی طرف سے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا جو تمہارے لیے بےخوفی کا باعث ہوئی اور تم پر آسمان سے بارش نازل فرما رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو ڈھارس بندھائے اور اس کے ذریعہ تمہارے قدم جما دے

تفسیر:

11 ۔ 12:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” (یاد کرو) جب اللہ اپنی طرف سے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا جو تمہارے لیے بےخوفی کا باعث ہوئی اور تم پر ٓسمان سے بارش نازل فرما رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو ڈھارس بندھائے اور اس کے ذریعہ تمہارے قدم جما دے۔ (اور یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو تم مومنوں کو ثابت قدم رکھو، میں عنقریب ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، سو تم کافروں کی گردنوں کے اوپر وار کرو اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ “

غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ کی امداد کی چھ انواع 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اجمالی طور پر فرمایا تھا کہ غزوہ بدر میں صرف اللہ کی طرف سے مدد تھی۔ اب اللہ تعالیٰ تفسیل سے اس امداد کو بیان فرما رہا ہے۔ الانفال کی آیت 11، 12 میں اللہ تعالیٰ نے اس امداد کی چھ انواع بیان فرمائی ہیں۔ 

1 ۔ مسلمانوں پر غنودگی طاری کرنا۔

2 ۔ آسمان سے بارش نازل فرمانا۔

3 ۔ مسلمانوں کے دلوں کو ڈھارس بندھانا اور ان کے دلوں کو مضبوط کرنا۔

4 ۔ مسلمانوں کے قدم جمانا۔ 

5 ۔ فرشتوں کی طرح یہ وحی نازل فرمانا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔

6 ۔ کافروں کے دلوں پر رعب طاری کرنا اور ان کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت ڈالنا۔ 

اب ہم تفصیل کے ساتھ ہر امداد کی نعمتوں کو بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق 

جس دن کی صبح جنگ ہونی تھی اس رات مسلمانوں پر نیند کا طاری ہونا 

نعاس، غنودگی کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان بالکل مطمئن ہوتا ہے اور اس کو کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا، مسلمانوں پر یہ غنودگی اس رات طاری ہوئی تھی جس کی صبح کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد کرنا تھا اور اس رات ان کو نیند آجانا نہایت عجیب تھا کیونکہ ان کی تعداد کم تھی اور صبح ان کو اپنے سے تین گنا لشکر کا سامنا کرنا تھا۔ بظاہر اس فکر اور پریشانی کی وجہ سے ان کو نیند نہیں آنی چاہیے تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مطمئن اور مضبوط کردیا، مسلمانوں میں سے حضرت مقداد بن اسود کے پاس ایک چتکبرے رنگ کا گھوڑا تھا جس کا نام سبحہ تھا۔ ایک گھوڑا حضرت زبیر بن العوام کے پاس تھا جس کا نام یعسوب تھا، اور ایک گھوڑا مرثد بن ابی مرثد کے پاس تھا جس کا نام سیل تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک تلوار اور ایک زرہ تھی، اور مسلمانوں کے پاس کل ستر اونٹ تھے اور ایک اونٹ پر باری باری تین مسلمان سوار ہوتے تھے۔ حضرت ابولبابہ اور حضرت علی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ میں بھی ایک اونٹ تھا، ان صاحبوں نے چاہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مستقل اونٹ پر سوار رہیں اور وہ پیدل چلتے رہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم مجھ سے زیادہ پیدل چلنے پر قادر نہیں ہو اور میں تمہاری بہ نسبت اجر سے مستغنی نہیں ہوں۔ اس کے برخلاف کفار قریش کے پاس ایک سو گھوڑے تھے اور ہر گھوڑے پر ایک زرہ پوش سوار تھا اور جو پیدل تھے ان کے پاس بھی زرہیں تھیں۔ وہ ہر روز نو، دس اونٹ ذبح کرتے تھے اور ان کے ساتھ باندیا تھیں جو گا بجا کر اور مسلمانوں کی ہجو میں اشعار پڑھ کر ان کو جوش دلا رہی تھیں، اور ان کی آتش غضب کو اور بھڑکا رہی تھیں، اندریں حالات مسلمانوں کو زیادہ فکر مند اور پریشان ہونا چاہیے تھا اور اگر وہ اسی طرح بےچینی سے جاگ کر رات گزارتے تو صبح کو وہ لڑنے کے لیے تازہ دم نہ ہوتے، سو اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا اور ان کی یہ امداد کی کہ ان پر نین دطاری کردی اور جمعہ کی صبح کو جس دن جنگ ہونی تھی وہ بالکل تازہ دم اور جنگ کے لیے تیار تھے۔ (الطبقات الکبری، دلائل النوۃ، سبل الہدی والرشاد ملتقطاً )

مسلمانوں پر اس رات غنودگی طاری کرنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں 

ہر نیند اور غنودگی اللہ کی طرف سے طاری ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس غنودگی کو طاری کرنے کی نسبت جو اپنی طرف کی ہے اور اس کو اہمیت سے بیان فرمایا تو ضرور اس میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نعمتیں ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں : 

1 ۔ جب کوئی شخص اپنے دشمن سے خوفزدہ ہو اور اس کو اپنے اہل و عیال کی جان کا خطرہ ہو تو عادتاً اس کو نیند نہیں آتی اور جب اس کیفیت میں نیند آجائے تو یہ ضرور ایک غیر معمولی بات ہے۔ 

وہ ایسی گہری نیند نہیں سوئے تھے کہ گردوپیش سے بالکل بیخبر ہوجاتے ورنہ دشمن ان پر اچانک ٹوٹ پڑتا اور ان سب کو ہلاک کردیتا۔ بلکہ ان پر صرف غنودگی طاری کی جس سے ان کی تھکاوٹ دور ہوجائے اور صبح کو وہ تازہ دم اٹھیں، اور اگر رات کو دشمن ان کی طرف آتا تو وہ فوراً بیدار ہوجاتے اور دشمن ان کو بیخبر ی میں ہلاک کرنے پر قادر نہ ہوتا۔

3 ۔ ایک بڑی جماعت کے ہر شخص کو بیک وقت نیند کا آجانا یہ بھی غیر معمولی بات ہے۔

4 ۔ نیند بےفکر اور سکون کے وقت آتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دل و دماغ سے دشمن کے خوف اور اس کی فکری کو دور کردیا تھا، اور تین سو تیرہ نفوس کے دل و دماغ میں بیک وقت ایک ہی قسم کی کیفیات کا طاری ہونا یہ بھی ایک غیر معمولی بات ہے۔ 

ان مذکورہ وجوہ سے معلوم ہوا کہ اس رات مسلمانوں پر غنودگی طاری کرنے میں کوئی وجوہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کا اظہار تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ تھا۔

بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیام گاہ اور بارش کا نزول 

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان بدر کی طرف روانہ ہوئے، ادھر مشرکین پہلے پہنچ چکے تھے اور انہوں نے پانی پر قبضہ کرلیا تھا، ان کا پڑاؤ وادی کے اوپر کی جانب تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی کی نچلی جانب تھے۔ کئی مسلمان جنبی ہوچکے تھے اور ان کے غسل کے لیے پانی نہیں تھا، اور کئی پیاسے تھے اور مسلمان جنبی تھے وہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے جنابت کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ تم کفار قریش پر غالب آنے کی کیسے توقع کرسکتے ہو حالانکہ تم میں کئی مسلمان بغیر وضو کے حالت جنابت میں نماز پڑھ رہے ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش نازل کی۔ انہوں نے غسل کیا، وضو کیا اور پانی پیا۔ وہ جگہ ریتلی تھی اور ریت کی وجہ سے ان کے پاؤں زمین میں دھنس رہے تھے اب ان کے قدم ریت پر جم گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں سے شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو زائل کردیا۔ (جامع البیان، جز 9، ص 261، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

امام ابن ہشام متوفی 218 ھ لکھتے ہیں : 

امام ابن اسحاق نے کہا کہ کفار قریش نے وادی بدر کے آخری کونے پر پڑاؤ ڈالا تھا اور ان کے پیچھے ریت کا ٹیلہ تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان اس تیلہ کے پیچھے تھے اور ریت کی زیادتی کی وجہ سے ان کے پاؤں زمین میں دھنس رہے تھے، اور پانی پر قریش کا قبضہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرمائی، جس سے ریت بیٹھ گئی اور جہاں قریش تھے وہاں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام ج 2، ص 232، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

امام بیہقی نے زہری، محمد بن یحییٰ بن حبان، عاصم بن عمر بن قتادہ، اور عبداللہ بن ابی بکر وغیرہم سے غزوہ بدر کے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس میں بدر کے میدان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیام گاہ کے متعلق بیان کیا ہے : 

قریش نے وادی بدر کے آخری کنارے میں پڑاؤ ڈالا اور بدر کے سارے کنویں مدینہ کی طرف سے ابتدائی کنارے کے ریتلے میدان کے وسط میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرمائی جس سے ریت بیٹھ گئی اور اس جگہ چلنا آسان ہوگیا۔ اور جس جانب کفار قریش تھے وہاں سخت کیچڑ ہوگئی اور وہاں چلنا دوبھر ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرعت سے روانہ ہوئے اور کفار قریش پر سبقت کرکے نزدیک ترین پانی کے کنویں پر پہنچ گئے۔ حضرت حباب بن منذر نے کہا یا رسول اللہ ! کیا اللہ نے وحی کے ذریعہ آپ کو اس جگہ قیام کرنے کا حکم دیا ہے کہ ہم اس جگہ سے سرمو تجاوز نہ کرسکیں یا آپ نے جنگ کی حکمت عملی کی وجہ سے اس جگہ کو منتخب فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ صرف جنگ کی حکمت عملی ہے۔ حضرت حباب نے کہا یا رسول اللہ ! تب یہاں سے اٹھیے اور ایسی جگہ قیام کیجئے کہ بدر کے تمام کنویں ہماری پشت پر ہوں، پھر ایک کنویں کے سوا باقی تمام کنویں بند کرادیجئے۔ اور زمین کھود کر ایک حوض بنوا دیجئے اور اس میں سارا پانی جمع کرلیں تاکہ اس حوض پر ہمارا قبضہ ہو، ہم جب چاہیں وہاں سے پانی حاصل کرلیں اور قریش کو ایک گھونٹ بھی پانی نہ مل سکے حتی کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کا فیصلہ فرما دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رائے کو پسند فرما لیا۔ (دلائل النبوۃ ج 3، ص 31 ۔ 35، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1415 ھ)

بدر کے دن بارش کے نزول میں اللہ کی نعمتیں 

کفار قریش نے پہلے پہنچ کر پانی پر قبضہ کرلیا تھا، مسلمان خوف زدہ اور پیاسے تھے اور بعض جنبی تھے، انہیں پینے کے لیے پانی میسر تھا نہ غسل کے لیے، علاوہ ازیں ریت میں ان کے پاؤں دھنس رہے تھے اور ہوا سے ریت اڑ رہی تھی، اور شیطان ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رہا تھا کہ اگر یہ دین سچا ہوتا تو تم اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے، پھر اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرمائی اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت نعمتیں ہیں۔ ان میں سے بعض کی تفصیل یہ ہے : 

1 ۔ ان کی پیاس بجھ گئی اور انہوں نے غسل کرلیا کیونکہ روایت ہے کہ انہوں نے زمین کو کھود کر ایک حوض بنا لیا تھا جس میں انہوں نے بارش کا پانی اکٹھا کرلیا۔

2 ۔ اللہ تعالیٰ تم سے شیطان کی نجاست دور کرے، اس سے یہ مراد ہے کہ اس بارش کے ذریعہ انہوں نے غسل کرلیا اور ان سے نجاست دور ہوگئی۔ نیز اس سے شیطان کا ڈالا ہوا یہ وسوسہ باطال ہوگیا کہ اگر تم دین حق پر ہوتے تو اس طرح پیاسے اور جنبی نہ رہتے۔

بقیہ چار نعمتوں کی تفصیل 

اس کے بعد فرمایا تاکہ تمہارے دلوں کو ڈھارس بندھائے۔ یہ تیسری نعمت اور امداد کا بیان ہے، کیونکہ بارش نازل ہونے کی وجہ سے ان کے دل مضبوط ہوگئے اور گھبراہٹ اور خوف ان سے دور ہوگیا۔ لغت میں ربط کا معنی باندھنا ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں کو باندھ دیا تاکہ اس میں خوف و گھبراہٹ نہ داخل ہوسکے۔ 

پھر فرمایا اور تمہارے قدموں کو جما دے، یہ چوتھی نعمت اور امداد کا بیان ہے، کیونکہ ریت میں مسلمانوں کے پاؤں دھنس رہے تھے اور ان کو چلنے میں مشکل اور دشواری تھی، اور بارش ہونے کے بعد ریت بیٹھ گئی اور وہ قدم جما کر چلنے لگے، اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے دل مضبوط کردیے تو وہ جنگ میں ثابت قدم ہوگئے۔ کیونکہ اگر ان کے دل کمزور ہوتے تو یہ خدشہ رہتا ہے کہ وہ جنگ کی شدت سے گھبرا کر بھاگ جائیں گے، اور اس نعمت اور امداد کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ مسلمان وادی بدر کی جس جانب تھے وہاں ریتلی زمین تھی اور کفار قریش جس جانب تھے وہاں دھول اور مٹی تھی، اور بارش ہونے سے ریت بیٹھ گئی اور مسلمانوں کے لیے آسانی ہوگئی اور جہاں دھول اور مٹی تھی وہاں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہوگئی اور ان کا چلنا دو بھر ہوگیا تو اس بارش نے جہاں مسلمانوں کے لیے آسانی کی، وہاں کفار کے لیے مشکل اور دشواری کی اور دشمن کی مصیبت بھی انسان کے لیے نعمت ہوتی ہے۔

اس کے بعد فرمایا جب آپ کا رب فرشتوں کی طرف وحی فرما رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، یہ نعمت اور امداد کی پانچویں قسم ہے۔ اس نعمت کی دو تفسیریں ہیں ایک یہ کہ جب فرشتے مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ ان کے یعنی فرشتوں کے ساتھ ہے، اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ مسلمانوں کی مدد کرو اور ان کو ثابت قدم رکھو۔ اور فرشتوں کے ثابت قدم رکھنے کا یہ معنی ہے کہ فرشتوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دل یہ خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو یہ خبر دے دی اور اس سے مسلمانوں کے دل مطمئن ہوگئے اور وہ اس جنگ میں ثابت قدم رہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں عنقریب ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، اور یہ نعمت اور امداد کی چھٹی قسم ہے، کیونکہ انسان کے جسم کا امیر اس کا دل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں کو قوی کردیا اور ان کے دلوں سے کفار کے خوف کو زائل کردیا اور پھر کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔

اس کے بعد فرمایا سو تم کافروں کی گردنوں پر وار کرو اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ اس آیت کی دو تفسیریں ہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ یہ حکم فرشتوں کو ہے اور اس جملہ سے متصل ہے کہ تم مومنوں کو ثاتب قدم رکھو، اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ حکم مومنوں کو ہے۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ یہی تفسیر زیادہ صحیح ہے کیونکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ فرشتوں کو قتال اور جہاد کے لیے نہیں نازل کیا گیا تھا۔ ان کے ہر جوڑ پر وار کرو یعنی ان کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ ڈالو۔ اس کی بھی دو تفسیریں ہیں ایک تفسیر یہ ہے کہ جس طرح بھی چاہو ان کو مار ڈالو، کیونکہ گردن کے اوپر سر ہے اور سر اشرف الاعضاء ہے اور جوڑا ضعف الاعضاء ہیں پس یہاں اشرف اور اضعف کا ذکر کرکے متنبہ کیا ہے کہ ان کو جس طرح چاہو قتل کردو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یا تو ان کو قتل کردو یا پھر ان کی انگلیوں اور ان کے ہاتھوں کو کاٹ ڈالو تاکہ یہ تم پر حملہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 11