حدیث نمبر 54

روایت ہے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب تم نماز پڑھو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے کوئی تمہارا امام بن جائے ۱؎ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب کہے “غیر المغضوب علیہم ولا الضالین”تو تم آمین کہواﷲ تمہاری قبول کرے گا ۲؎ پھر جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا ا ور تم سے پہلے سر اٹھائے گا حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اس کے بدلے میں ہوا ۳؎ اور جب کہے”سمع اﷲ لمن حمدہ”تو تم کہو “اللھم ربنالك الحمد” اﷲ تمہاری سنے گا ۴؎(مسلم)

شرح

۱؎ یہ ان اصحاب سے خطاب ہے جو سب عالم و فقیہ تھے،یعنی جب تم ایسی جگہ ہو جہاں کوئی امام مقرر نہ ہو تو چونکہ تم سب علماء فقہاء ہو لہذا تم میں سے کوئی بھی امام بن جائے،لہذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں جہاں فرمایا گیا کہ امام وہ بنے جو سب سے زیادہ عالم یا قاری ہو۔

۲؎ یعنی اس آمین کی برکت سے تمہاری الحمد والی تمام دعائیں قبول ہوں گی یا جب تم سب مل کر آمین کہو گے تو قبول ہوگی کیونکہ جماعت کی نماز و دعائیں اگر ایک کی قبول ہوجائیں تو سب کی قبول ہوتی ہے اسی لیے دعا اور عبادات کے لیئے جماعات تلاش کرتے رہو۔

۳؎یعنی تمام حرکات و سکنات میں تم امام کے پیچھے رہو کہ امام جب رکوع میں پہنچ جائے تو تم رکوع میں جھکو اور جب رکوع سے سیدھا کھڑا ہوجائے تو تم اٹھو،امام رکوع میں تم سے پہلے پہنچے گا اور تم سے پہلے اٹھے گا تو ایک لحظہ رکوع میں تم پیچھے پہنچو گے اور ایک لحظہ بعد میں اٹھو گے وہ کمی اس زیادتی سے پوری ہوکر تمہارا اور امام کا رکوع برابر ہوجائے گا،سارے ارکان کا یہی حال ہے۔

۴؎یعنی جماعت میں امام صرف “سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ” کہے اور مقتدی صرف “رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد” کہے لہذا یہ حدیث احناف کی قوی دلیل ہے،بعض روایات میں صرف “رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد”ہے،بعض میں اَللّٰھُمَّ بھی ہے،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مقتدی دونوں کلمے کہے یہ حدیث انکے خلاف ہے۔