جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں
باب القراءۃفی الصلوۃ
نماز میں قرأت ۱؎
الفصل الاول
پہلی فصل
۱؎ نماز میں قرآن کریم کی ایک لمبی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھنا فرض ہے،سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ اور سورت ملانا واجب۔ فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں تلاوت قرآن فرض ہے،باقی رکعات میں نفل،دیگر نمازوں کی ہر رکعت میں تلاوت فرض،اس کے تفصیلی مسائل کتب فقہ میں دیکھو۔خیال رہے کہ نماز کی بنیا د افعال پر ہے،اقوال پرنہیں اسی لیے گونگے پر نماز فرض ہے اگرچہ وہ تلاوت نہیں کرسکتا لیکن جو نماز کے ارکان ادا نہ کرسکے اس پر نماز معاف ہوجاتی ہے۔
حدیث نمبر 50
روایت ہے حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ۱؎ (مسلم،بخاری)مسلم کی روایت میں ہے کہ اس کی نماز نہیں جو سورۂ فاتحہ اور کچھ زیادہ نہ پڑھے۲؎
شرح
۱؎ احناف کے نزدیک سورۂ فاتحہ واجب ہے فرض نہیں،بعض اماموں کے نزدیک فرض ہے۔وہ حضرات حدیث کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہیں،ہم اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کامل نہیں،یعنی لائے نفی جنس کی خبر ان کے ہاں صَحِیْحٌ ہے،ہمارے ہاں کَامِلٌ مگر مذہب حنفی نہایت قوی ہے اور ان کا یہ ترجمہ نہایت مناسب چند وجوہ سے:ایک یہ کہ حنفی ترجمہ کی صورت میں یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے خلاف نہ ہوگی”فَاقْرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ”اور ان بزرگوں کے ترجمہ پر یہ حدیث اس آیت کے سخت خلاف ہوگی کیونکہ قرآن سے معلوم ہورہا ہے کہ مطلقًا تلاوت کافی ہے اور حدیث کہہ رہی ہے کہ بغیر فاتحہ نماز نہیں ہوتی۔دوسرے یہ کہ اسی حدیث کے آخر میں آرہا ہے کہ جو سورۂ فاتحہ اور ساتھ کچھ اور نہ پڑھے اس کی نماز نہیں اور ان بزرگوں کے ہاں سورت ملانا فرض نہیں تو ایک ہی لفظ سے سورۂ فاتحہ فرض ماننا اور ضم سورت فرض نہ ماننا کچھ عجیب سی بات ہے۔تیسرے یہ کہ اگلی حدیث ابوہریرہ میں حنفی معنی صراحۃً آرہے ہیں کہ جو نماز میں الحمد نہ پڑھے اس کی نماز ناقص ہے اور حدیث کی شرح حدیث سے ہو تو قوی ہے،نیز حنفیوں کے نزدیک فاتحہ مطلقًا پڑھنے سے مراد مطلقًا پڑھنا ہے حقیقتًاہو یا حکمًا۔اکیلا امام حقیقتًا فاتحہ پڑھے گا اور مقتدی حکمًا کہ امام کا پڑھنا اس کا پڑھنا مانا جائے گا مگر بعض کے نزدیک یہاں حقیقتًا پڑھنا ہی مراد ہے ان کے ہاں مقتدی پربھی فاتحہ پڑھنا فرض ہے لیکن حنفیوں کی توجیہ نہایت ہی قوی ہے چند وجوہ سے:ایک یہ کہ اس صورت میں یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہ ہوگی”وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوۡا لَہٗ وَاَنۡصِتُوۡا” الخ۔ان لوگوں کی تفسیر کے مطابق آیت وحدیث میں سخت تعارض ہوگا۔دوسرے یہ کہ اس صورت میں یہ حدیث مسلم شریف کی اس روایت کے خلاف نہ ہوگی “وَاِذَا قَرَءَفَانْصِتُوا”۔تیسرے یہ کہ حنفی ترجمے کے مطابق رکوع میں ملنے والا بلاتکلف رکعت پالے گا مگر ان لوگوں کو اس مسئلے پر بہت مصیبت پیش آئے گی کہ بغیر فاتحہ پڑھے رکعت کیسے پالی۔چوتھے یہ کہ بعض صورتوں میں وہ لوگ اس حدیث پرعمل نہیں کرسکتے مثلًا مقتدی فاتحہ کے بیچ میں تھا کہ امام نے رکوع کردیا اس کے لیے یہ حدیث وبال جان بن جائے گی لہذا مذہب حنفی نہایت ہی قوی ہے اور یہ حدیث ان کے بالکل خلاف نہیں۔اس کی پوری تحقیق ہماری کتاب “جاءالحق”حصہ دوم میں دیکھو۔
۲؎یعنی نمازی پر سورۂ فاتحہ پڑھنا بھی واجب ہے اور اس کے ساتھ کچھ اور تلاوت بھی واجب کہ اگر ان میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا گیا تو نماز ناقص ہوگی،یہ حدیث حنفیوں کی قوی دلیل ہے۔جو لوگ اس حدیث کی بنا پر ہرنمازی پر سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض کہےا ہیں وہ فصاعدًا کے متعلق کیا کہیں گے کیونکہ ان کے ہاں سورۃ ملانا فرض نہیں۔