أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡهُمُ الۡاَدۡبَارَ‌ۚ‏ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! جب جنگ میں تمہارا کفار سے مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرو

تفسیر:

15 ۔ 16:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اے ایمان والو ! جب جنگ میں تمہارا کفار سے مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرو۔ اور جس شخص نے جنگ کی حکمت عملی یا ایک جماعت سے ملنے (کے قصد) کے بغیر میدان جنگ سے پیٹھ پھیر تو بیشک وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے “

زحف کا معنی 

الانفال کی آیت : 15 میں ” زحفا ” کا لفظ ہے، زحف کا لغوی معنی ہے : بچہ کا سرین یا گھٹنے کے بل آہستہ آہسہت گسٹنا اور ” زحف العسکر الی العدو ” کا معنی ہے۔ لشکر کا کثرت کے سبب سے آہستہ آہستہ آگے بڑھنا، زحف البعیر کا معنی ہے اونٹ کا تھک کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنا، اس آیت میں زحف سے مراد ہے دشمن کا بہت بڑا لشکر کیونکہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کے لشکر کی تعداد تین گنا زیادہ تھی۔ (المفردات ج 1، ص 280، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ 1418 ھ)

میدان جنگ سے پسپائی کی دو جائز صورتیں۔ 

اس آیت کا منشا یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی فوج کی پسپائی جنگ کی کسی حکمت عملی کی بنا پر ہو، مثلاً پیچھے ہٹ کر حملہ کرنا زیادہ موثر ہو تو اس صورت میں مسلمان فوج کا پسپا ہونا جائز ہے۔ اور جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان سپاہیوں کی ایک جماعت مرکزی فوج سے بچھڑ گئی ہے اب وہ اپنے بچاو کے لیے پسپا ہو کر مرکزی فوج سے ملنا چاہتی ہے تو اس قسم کی پسپائی بھی جائز ہے، مسلامن فوج کا میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنا صرف اس صورت میں ناجائز اور حرام ہے جبکہ وہ بزدلی سے محض جنگ سے بچنے کی خاطر میدان جنگ سے پیٹھ مور کر بھاگے۔

میدان جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگنا بہت سخت گناہ اور اکبر الکبائر میں سے ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے اجتناب کرو، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ کون کون سی چیزیں ہیں، آپ نے فرمایا : 

1 ۔ اللہ کا شریک بنانا 

2 ۔ جادو کرنا۔

3 ۔ جس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا۔ 

4 ۔ یتیم کا مال کھانا۔ 

5 ۔ سود کھانا۔

6 ۔ جنگ کے دن دشمن سے پیٹھ پھیرنا۔

7 ۔ بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو بدکاری کی تہمت لگانا۔ 

(صحیح مسلم الایمان : 145 (189) 256 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 2766 ۔ سنن ابو اداود رقم الحدیث : 2874 ۔ سن النسائی رقم الحدیث : 3671 ۔ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 11361)

اگر دشمن کی تعداد مسلمانوں سے دگنی یا اس سے کم ہو تو پھر مسلمانوں کا میدان سے بھاگنا جائز نہیں 

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں : 

اس آیت میں اللہ عزوجل نے یہ حکم دیا کہ میدان جنگ میں مسلمان کافروں کو پیٹھ نہ دکھائیں اور یہ حکم اس قید کے ساتھ مقید ہے کہ کفار مسلمانوں سے تعداد میں دگنے سے زیادہ نہ ہوں، اگر کفار مسلمانوں سے دگنے ہوں تو پھر مسلمانوں کا ان سے بھاگنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر دو تین گنے زیادہ ہوں اور پھر مسلمان ان سے پیٹھ مور کر بھاگیں تو پھر یہ حرام اور ناجائز نہیں ہے، ابن ماجشون نے یہ کہا ہے کہ فوج کے ضعف، قوت اور عدد کی رعایت کی جائے گی، اگر کافر فوج کی تعداد ایک سو ہو اور مسلمان بھی ایک سو ہوں، لیکن وہ بہت ہٹے کٹے اور قوی اور توانا ہوں اور مسلمان دبلے پتلے اور کمزور ہوں تو عدد میں برابر ہونے کے باوجود مسلمانوں کا ایسے کافروں کے مقابلہ سے بھاگنا جائز ہے اور جمہور کے نزدیک ایک سو مسلمانوں کا دو سو کافروں سے کسی حال میں بھاگنا جائز نہیں ہے اور اگر کافر دو سو سے زیادہ ہوں تو ان سے بھاگنا اگرچہ جائز ہے لیکن صبر و استقامت سے ان کے مقابلہ پر جمے رہنا اور ڈٹے رہنا احسن اور افضل ہے، غزوہ موتہ میں تین ہزار مسلمان دو لاکھ کافروں کے مقابلہ پر تھے ان میں ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ مستعرب تھے۔ 

فتح اندلس کی تاریخ میں مذکور ہے کہ جب 93 ھ میں موسیٰ بن نصیر کے آزد کردہ غلام طارق سترہ سو مسلمانوں کو ساتھ لے کر اندلس پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے، ان کے مقابلہ میں عیسائی حکمران ذریق ستر ہزار سواروں کے ساتھ آیا۔ طارق صبر و استقامت کے ساتھ ذریق سے جنگ کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے طارق کو فتح یاب کیا اور ذریق شکست کھا گیا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 7، ص 340 ۔ 341، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سے دگنی تعداد میں کافروں کے مقابلہ سے نہ بھاگیں یہ حکم اس آیت سے ماخوذ ہے : ” فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین وان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اللہ واللہ مع الصبرین : پس اگر تم ” میں سو سو آدمی صابر ہوئے تو وہ اللہ کے اذن سے دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوئے تو وہ اللہ کے اذن سے دو ہزار پر غالب آجائیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ” (الانفال :66)

میدان جنگ سے بھاگنے کی ممانعت قیامت تک کے لیے عام ہے یا یوم بدر کے ساتھ مخصوص ہے 

اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ میدان جنگ سے بھاگنے کی ممانعت یوم بدر کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ ممانعت قیامت تک کے لیے ہے۔ 

ابونضرہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا یہ ممانعت یوم بدر کے ساتھ مخصوص تھی اور مسلمانوں کے لیے اس بھاگنا جائز نہ تھا، اور اگر وہ بھاگتے تو مشرکین ہی کی سمت بھاگتے، کیونکہ روئے زمین پر اس وقت ان کے سوا اور کوئی مسلمان نہ تھا (جامع البیان، ج 9، ص 266، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت یوم بدر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 2648 ۔ السنن الکبری للنسائی ج 6، رقم الحدیث : 1203 ۔ المستدرک ج 2، ص 327 ۔ جامع البیان رقم الحدیث : 12377، جز 9، ص 266 ۔ الدر المنثور ج 4، ص 36)

حضرت ابوسعید نے کہا یہ آتی خصوصیت سے اہل بدر کے متعلق ہے، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت ابن عمر، نافع، عکرمہ، الحسن، ضحاک، قتادہ، ربیع بن انس، ابونضرہ، یزید بن ابی حبیب اور سعید بن جبیر کا بھی یہ قول ہے (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج 5، ص 1670، رقم الحدیث : 8891، 8892، مطبوعہ مکہ مکرمہ)

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ حکم بدر دن تھا، اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا مسلمانوں کی اور کوئی جماعت نہیں تھی، لیکن اب بعض مسلمان بعض دوسرے مسلمانوں کی جماعت ہیں۔ 

ضحاک بیان کرتے ہیں کہ فرار صرف بدر کے دن تھا کیونکہ اس دن مسلمانوں کی کوئی جائے پناہ نہیں تھی جہاں پناہ حاصل کرتے اور آج کل فرار نہیں ہے۔

یزید بن ابی حبیب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن بھاگنے والوں کے لیے دوزخ کو واجب کیا ہے، اور احد کے دن بھاگنے والوں کے متعلق فرمایا : انما استزلہم الشیطان ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللہ عنہم : شیطان ہی نے ان کے بعض کاموں کی وجہ سے ان کے قدم پھسلا دیے تھے اور بیشک اللہ نے انہیں معاف کردیا ” (آل عمران :155)

اور اس کے ساتھ سال بعد جنگ حنین میں بھاگنے والوں کے متعلق فرمایا : ” و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین : اور حنین کے دن جب تمہاری کثرت نے تمہیں گھمنڈ میں ڈال دیا تو اس (کثرت) نے کسی چیز کو تم سے دور نہ کیا اور زمین اپنی وسعت کے کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور پھر تم پیٹھ پھیر کر لوٹے “

” ثم یتوب اللہ من بعد ذلک علی من یشاء واللہ غور رحیم : پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہے توبہ قبول فرما لیتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے ” (التوبہ :27) (جامع البیان جز 9، ص 267 ۔ 268، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر تمام علماء کا مذہب یہ ہے کہ اس آیت کا حکم عام ہے اور قیامت تک مسلمانوں پر مذکور الصدر دو صورتوں کے سوا میدان جنگ سے اس وقت تک بھاگنا جائز نہیں ہے جب تک کہ دشمن کی تعداد دگنے سے متجاوز نہ ہو، اور یہ آیت محکم ہے اور اس کا کوئی نساخ نہیں ہے، اور یہ کہنا صحیح نہیں کہ مسلمان اگر بھاگتے تو مشرکین ہی کی طرف بھاگتے کیونکہ میدنہ میں انصار مسلمین موجود تھے، اور جنگ احد اور جنگ حنین میں بھاگنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، اور اللہ تعالیٰ کا معافی کا اعلان کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوگیا تھا، لیکن انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ جس کی چاہے توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ اس آیت کے محکم ہونے اور قیامت تک واجب العمل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت جنگ بدر میں قتال اور جنگ ختم ہونے کے بعد نازل ہوئی ہے، امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور اکثر علماء کا یہی مذہب ہے۔ 

اگر دشمن کی تعداد دگنی ہو یا دگنی سے کم ہو اور پھر کوئی مسلمان جنگ سے بچنے کی کوشش کے لیے دشمن سے پیٹھ موڑ کر بھاگے تو اس کا یہ فعل ناجائز اور حرام ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ سے توبہ کرے، اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے، اس کو معاف کردے گا۔ حضرت زید (رض) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے یہ کہا ” استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب علیہ ” تو اس کی مغفرت کردی جائے گی خواہ وہ میدان جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگا ہو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 1517، سنن الترمزی رقم الحدیث : 3577)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 15