کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ10 رکوع 7 سورہ التوبہ آیت نمبر1 تا 7
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ(۱)
بیزاری کا حکم سنانا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے (ف۲)
(ف2)
مشرکینِ عرب اورمسلمانوں کے درمیان عہد تھا ، ان میں سے چند کے سوا سب نے عہد شکنی کی تو ان عہد شکنوں کا عہد ساقط کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ چار مہینے وہ امن کے ساتھ جہاں چاہیں گزاریں ان سے کوئی تعرُّض نہ کیا جائے گا ۔ اس عرصہ میں انہیں موقع ہے کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے اور اپنی احتیاطیں کر لیں اور جان لیں کہ اس مدت کے بعد اسلام منظور کرنا ہوگا یا قتل ۔ یہ سورت ۹ہجری میں فتحِ مکّہ سے ایک سال بعد نازِل ہوئی ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سنہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج مقرر فرمایا تھا اور انکے بعد علی مرتضٰی کو مجمعِ حُجّاج میں یہ سورت سنانے کے لئے بھیجا چنانچہ حضرت علی مرتضٰی نے دس ذی الحِجّہ کو جَمرۂ عُقبہ کے پاس کھڑے ہو کر ندا کی ” یٰاَیُّھَاالنَّاسُ ” میں تمہاری طرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فِرِستادہ آیا ہوں ، لوگوں نے کہا آپ کیا پیام لائے ہیں ؟ تو آپ نے تیس یا چالیس آیتیں اس سورت مبارکہ کی تلاوت فرمائیں پھر فرمایا میں چار حکم لایا ہوں ۔
(۱) اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبۂ معظّمہ کے پاس نہ آئے ۔ (۲) کوئی شخص بَرَہۡنہ ہو کر کعبۂ معظّمہ کا طواف نہ کرے ۔ (۳) جنّت میں مؤمن کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا ۔ (۴) جس کارسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد ہے وہ عہد اپنی مدت تک رہے گا اور جس کی مدت معیّن نہیں ہے اس کی معیاد چار ماہ پر تمام ہوجائے گی ۔ مشرکین نے یہ سن کر کہا کہ اے علی اپنے چچا کے فرزند (یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو خبر دے دیجئے کہ ہم نے عہد پس پشت پھینک دیا ، ہمارے ان کے درمیان کوئی عہد نہیں ہے بَجُز نیزہ بازی اور تیغ زنی کے ۔ اس واقعہ میں خلافتِ حضرتِ صدیقِ اکبر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو تو امیرِ حج بنایا اور حضرت علی مرتضٰی کو ان کے پیچھے سورۂ براءت پڑھنے کے لئے بھیجا تو حضرت ابوبکر امام ہوئے اور حضرت علی مرتضٰی مقتدی ۔ اس سے حضرت ابوبکر کی تقدیم حضرت علی مرتضٰی پر ثابت ہوئی ۔
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ(۲)
تو چا ر مہینے زمین پر چلو پھرو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے (ف۳) اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے (ف۴)
(ف3)
اور باوجود اس مہلت کے ا سکی گرفت سے نہیں بچ سکتے ۔
(ف4)
دنیا میں قتل کے ساتھ اور آخرت میں عذاب کے ساتھ ۔
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ﳔ وَ رَسُوْلُهٗؕ-فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳)
اور منادی پکار دینا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن (ف۵) کہ اللہ بیزار ہے مشرکوں سے اور اس کا رسول تو اگر تم توبہ کرو (ف۶) تو تمہارا بھلا ہے اور اگر منہ پھیرو (ف۷) تو جان لو کہ تم اللہ کو نہ تھکا سکو گے (ف۸) اور کافروں کو خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی
(ف5)
حج کو حجِ اکبر فرمایا اس لئے کہ اس زمانہ میں عمرہ کو حجِ اصغر کہا جاتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ اس حج کو حجِ اکبر اس لئے کہا گیا کہ اس سال رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج فرمایا تھا اور چونکہ یہ جمعہ کو واقع ہوا تھا اس لئے مسلمان اس حج کو جو روزِ جمعہ ہو حجِ وَداع کا مذَکِّر جان کر حجِ اکبر کہتے ہیں ۔
(ف6)
کُفر و غدر سے ۔
(ف7)
ایمان لانے اور توبہ کرنے سے ۔
(ف8)
یہ وعیدِ عظیم ہے اور اس میں یہ اِعلام ہے کہ اللہ تعالٰی عذاب نازِل کرنے پر قادر ہے ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۴)
مگر وہ مشرک جن سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے عہد میں کچھ کمی نہ کی (ف۹) اور تمہارے مقابل کسی کو مدد نہ دی تو ان کا عہد ٹھہری ہوئی مدت تک پورا کرو بےشک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے
(ف9)
اور اس کو اس کی شرطوں کے ساتھ پورا کیا ۔ یہ لوگ بنی ضمرہ تھے جو کنانہ کا ایک قبیلہ ہے اور ان کی مدت کے نو مہینے باقی رہے تھے ۔
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ-فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵)
پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو (ف۱۰) جہاں پاؤ (ف۱۱) اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں (ف۱۲) اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو (ف۱۳) بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
(ف10)
جنہوں نے عہد شکنی کی ۔
(ف11)
حِلّ میں ، خواہ حرم میں کسی وقت و مکان کی تخصیص نہیں ۔
(ف12)
شرک و کُفر سے اور ایمان قبول کریں ۔
(ف13)
اور قید سے رہا کر دو اور ان سے تعرُّض نہ کرو ۔
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ۠(۶)
اور اے محبوب اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے (ف۱۴) تو اسے پناہ دو کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچادو(ف۱۵)یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں(ف۱۶)
(ف14)
مہلت کے مہینے گزرنے کے بعد تاکہ آپ سے توحید کے مسائل اور قرآنِ پاک سنیں جس کی آپ دعوت دیتے ہیں ۔
(ف15)
اگر ایمان نہ لائے ۔
مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ مستأمَن کو ایذا نہ دی جائے اور مدت گزرنے کے بعد اس کو دارالاِسلام میں اِقامت کا حق نہیں ۔
(ف16)
اسلام اور اس کی حقیقت کو نہیں جانتے تو انہیں امن دینی عین حکمت ہے تاکہ کلام اللہ سنیں اور سمجھیں ۔
كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۚ-فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷)
مشرکوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے پاس کوئی عہد کیوں کر ہوگا (ف۱۷) مگر وہ جن سے تمہارا معاہدہ مسجد حرام کے پاس ہوا (ف۱۸) تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تم ان کے لیے قائم رہو بےشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں
(ف17)
کہ وہ عذر و عہد شکنی کیا کرتے ہیں ۔
(ف18)
اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی مثل بنی کنانہ و بنی ضمرہ کے ۔