اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَكُمُ الۡفَتۡحُۚ وَاِنۡ تَنۡتَهُوۡا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡۚ وَ اِنۡ تَعُوۡدُوۡا نَـعُدۡۚ وَلَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡكُمۡ فِئَتُكُمۡ شَيۡئًـا وَّلَوۡ كَثُرَتۡۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 19
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَكُمُ الۡفَتۡحُۚ وَاِنۡ تَنۡتَهُوۡا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡۚ وَ اِنۡ تَعُوۡدُوۡا نَـعُدۡۚ وَلَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡكُمۡ فِئَتُكُمۡ شَيۡئًـا وَّلَوۡ كَثُرَتۡۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
(آپ ان کافروں سے کہیے) اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے ا چکا ہے اور اگر تم (کفر اور شرک سے) باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اور اگر تم نے پھر یہی حرکت کی تو ہم پھر تمہیں سزا دیں گے، اور تمہارا گروہ خواہ کتنا زیادہ ہو وہ تمہارے کسی کام نہ آسکے گا اور بیشک اللہ مومنوں کے ساتھ ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” (آپ ان کافروں سے کہیے) اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے ا چکا ہے اور اگر تم (کفر اور شرک سے) باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اور اگر تم نے پھر یہی حرکت کی تو ہم پھر تمہیں سزا دیں گے، اور تمہارا گروہ خواہ کتنا زیادہ ہو وہ تمہارے کسی کام نہ آسکے گا اور بیشک اللہ مومنوں کے ساتھ ہے “
اللہ نیک مسلمانوں کی نصرت اور حمایت فرماتا ہے، بدکاروں کی نہیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو تمہارے سامنے فیصلہ آچکا ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ خطاب کفار کی طرف متوجہ ہے۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
زہری نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ابوجہل بن ہشام نے دعا کی ہم میں سے جو جھوٹا ہو اور رشتہ کو منقطع کرنے والا ہو، اس کو آج کے ہلاک کردے، اس کی مراد تھی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی اپنی ذات میں سے جو جھوٹا ہو۔
سدی نے بیان کیا ہے کہ جب مشرکین مکہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعا کی۔ اے اللہ ! ان دو لشکروں میں سے جو زیادہ عزیز ہو، اور ان دو جماعتوں میں سے جو زیادہ مکرم ہو، اور ان دو قبیلوں میں سے جو زیادہ بہتر ہو اس کو فتح عطا فرما۔
ضحاک نے اس آیت کی تفسیر میں کہا جب مشرکین روانہ ہوئے تو وہ اپنے قافلہ کو دیکھ رہے تھے اور قافلے والوں ابوسفیان اور اس کے اصحاب نے مشرکین کی طرف مدد مانگنے کا پیغام بھیجا تھا۔ تب ابوجہل نے دعا کی : اے اللہ ! ہم دونوں میں سے جو تیرے نزدیک بہتر ہو اس کی مدد فرما۔ (جامع البیان جز 9، ص 275، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)
اس کے بعد فرمایا اگر تم باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم نے پھر یہی حرکت کی تو ہم پھر تمہیں سزا دیں گے۔
اس بھی کفار کو خطاب ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول سے عداوت رکھنے، ان کی تکذیب کرنے اور ان کے خلاف جنگ کرنے سے باز آگئے تو یہ دنیا میں بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم قتل کیے جانے، قیدی بنائے جانے اور بہ طور غنیمت تمہارے اموال کے لیے جانے سے بچ جاؤ گے اور آخرت میں بھی تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ تم دائمی عذاب سے بچ جاؤ گے اور ثواب سے مالا مال کیے جاؤ گے، اور اگر تم نے دوبارہ مسلمانوں سے جنگ کی تو ہم دوبارہ مسلمانوں کو تم پر مسلط کردیں گے اور تم غزوہ بدر میں مشاہدہ کرچکے ہو کہ اللہ کی تائید اور نصرت مسلمانوں کے ساتھ ہے اور تم کتنی ہی بھاری جمعیت کو لے کر کیوں نہ آؤ، وہ تم کو شکست سے نہیں بچا سکتی۔ اور اگر ان آیات کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہو جیسا کہ بعض مفسرین کی رائے ہے، تو معنی اس طرح ہوگا :
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے کفار کے بہت بڑے لشکر کو دیکھتا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر فتح اور نصرت کی دعا کی اور کہا اے اللہ ! تو نے کفار کی دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کا ہم سے وعدہ کیا ہے سو وہ ہمٰں عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے ہم سے فتح طلب کی تھی سو لو اب فتح آچکی ہے۔ اور اگر تم انفال (اموال غنیمت) میں جھگڑا کرنے سے باز آگئے اور قیدیوں کا فدیہ لینے سے رک گئے تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اور اگر تم ان جھگڑوں کی طرف دوبارہ پلٹ گئے تو ہم تمہاری مدد کرنے سے رک جائیں گے کیونکہ ہم نے تم سے جو فتح اور نصرت کا وعدہ کیا ہے، وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تم دائما ہماری اطاعت کروگے اور ہماری نافرمانی نہیں کروگے، اور اگر تم اسی روش پر برقرار رہے تو تمہاری تعداد کی کثرت بھی تمہیں کچھ نفع نہیں دے سکے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی مسلمانوں کی نصرت اور حمایت کرتا ہے جو گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 19