“وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰىہَا”اور “وَالضُّحٰی” “وَالَّیۡلِ اِذَا یَغْشٰی”اور “سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی”پڑھا کرو
حدیث نمبر 61
روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے پھر آکر اپنی قوم کی امامت کرتے ۱؎ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء پڑھی پھر اپنی قوم میں آئے ان کے امام بنے اور سورۃ بقر شروع کردی تو ایک شخص پھر گیا۲؎ کہ اس نے سلام پھیرکر اکیلے نماز پڑھی اور چلا گیا لوگوں نے کہا اے فلاں کیا تو منافق ہوگیا بولا نہیں رب کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں گا اور آپ کو یہ خبر دوں گا۳؎ پھر وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اﷲ ہم لوگ اونٹ والے ہیں ۴؎ دن بھر کام کرتے ہیں اور حضرت معاذنے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر اپنی قوم میں آئے سورۂ بقر شروع کردی۵؎ تب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ پر متوجہ ہوئے اور فرمایا اے معاذ کیا تم فتنہ گر ہو “وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰىہَا”اور “وَالضُّحٰی” “وَالَّیۡلِ اِذَا یَغْشٰی”اور “سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی”پڑھا کرو ۶؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ ظاہر یہ ہے کہ حضرت معاذ حضور کی ساتھ نفل پڑھ لیتے تھے،پھر اپنی قوم میں آکر انہیں فرض پڑھاتے تھے کیونکہ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ آپ پہلے فرض پڑھتے تھے اور بعد میں نفل،نیز یہ فعل تو حضرت معاذ کا ہے اور اس کے راوی حضرت جابر ہیں اورکسی کی نیت صرف اندازے سے معلوم نہیں ہوسکتی اور اگر آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض ہی پڑھتے ہوں تو اپنی قوم کیساتھ بھی فرض ہی پڑھتے تھے اور یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب ایک فرض دو بار پڑھے جاتے تھے،بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔چنانچہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ہم کو ایک فرض دوبار پڑھنے سے منع کیا گیا اور اگر آپ حضور کے پیچھے فرض ہی پڑھتے ہوں اور اپنی قوم کے ساتھ نفل تو یہ آپ کا اجتہادی عمل ہے جس کی حضور کو اطلاع نہیں دی گئی تھی،اطلاع ہونے پرحضور نے اس سے منع فرما دیا۔چنانچہ امام احمد نے حضرت سلیم سلمی ٰسے روایت کی کہ جب حضور کی بارگاہ میں حضرت معاذ کا یہ واقعہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے معاذ! تم فتنہ گر نہ بنو یا میرے ہی ساتھ نماز پڑھا کرویا اپنی قوم کو ہلکی نماز پڑھایا کرو۔بہرحال یہ حدیث حنفیوں کے خلاف نہیں اور اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ نفل والے کے پیچھے فرض والے کی نماز جائز ہے۔اس کی مزید تحقیق ہماری کتاب “جاءالحق”حصہ دوم میں دیکھو۔خیال رہے کہ فرض والے کے پیچھے نفل والے کی نماز جائز ہے مگر نفل والے کے پیچھے فرض والے کی نماز جائز نہیں کیونکہ ترمذی،ابوداؤد،احمد وغیرہ میں ہے کہ حضور فرماتے ہیں”اَلاِمَامُ ضَامِنٌ”امام ضامن ہے یعنی مقتدی کی نماز امام کے ضمن میں ہے اور ظاہر ہے کہ فرض نفل کو اپنے ضمن میں لے سکتا ہے نہ کہ نفل فرض کو۔(از لمعات)
۲؎ یعنی ایک صاحب نے جماعت سے نماز شروع کی مگر جب حضرت معاذ نے سورۂ بقر شروع کی تو وہ سمجھ گئے کہ آ پ پوری سورۂ بقر پڑھیں گے تو وہ نماز توڑ کر جماعت سے نکل گئے اور علیٰحدہ فرض پڑھ کر چلے گئے۔یہ صاحب خرام ابن ابی کعب انصاری ہیں جیسا کہ مرقات وغیرہ میں ہے۔
۳؎ ا س سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ جماعت اولیٰ کے وقت جماعت سے علیٰحدہ رہنا منافقت کی علامت ہے۔خواہ نماز علیٰحدہ پڑھے خواہ علیٰحدہ بیٹھا رہے۔دوسرے یہ کہ مقتدیوں پر امام کا احترام لازم ہے حتی الامکان ان پر زبان طعن دراز نہ کریں۔دیکھو حضرت خرام اور دوسرے صحابہ نے حصرت معاذ سے لڑائی شروع نہ کردی،بلکہ حضور کی بارگاہ میں شکایت پیش کی حضور نے انہیں سمجھایا۔تیسرے یہ کہ امام مسجد کی شکایت سلطان اسلام یا قاضی اسلام سے کرسکتے ہیں کہ وہ امام کو سمجھا بجھا دیں،اس میں کوئی حرج نہیں سنت صحابہ سے ثابت ہے۔
۴؎ نواضح ناضیحہ کی جمع ہے۔ناضحہ وہ اونٹنی ہے جو کھیتوں کو پانی دے خواہ اس طرح کہ رہٹ چلائے یا اس طرح کہ دور سے پانی اس پر لاد کر لایا جائے اور کھیتوں میں پھینکا جائے۔شکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم لوگ دن بھر کام کاج کے باعث تھک جاتے ہیں رات کو لمبی قرأت سے نماز نہیں پڑھ سکتے۔
۵؎ ظاہر یہ ہے کہ یہ شکایت حضرت معاذ کی موجودگی میں ہوئی اور اگر ان کے پس پشت ہوئی تو غیبت نہیں بلکہ اصلاح ہے جےث استاد سے بعض شاگردوں کی شکایت کرنالہذا حدیث پر کوئی اعتراض نہیں۔
۶؎ یعنی چونکہ تمہارے پیچھے کاروباری لوگ بھی ہوتے ہیں اور محنت مزدوری کرنیوالے بھی لہذا انہیں نماز مختصر پڑھایا کرو۔اس واقعہ سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ مقتدی بوقت ضرورت نماز توڑ سکتا ہے کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحب پر نماز توڑنے کی وجہ سے عتاب نہ فرمایا یہ نہ کہا کہ تم نے وہ نماز پڑھ لی ہوتی پھر مجھ سے شکایت کی ہوتی۔دوسرے یہ کہ نماز توڑنا ہو تو سلام پھیر دے۔کہ یہ سلام اگرچہ بے وقت ہے مگراسے نماز سے خارج کردے گا اور اگر یونہی بغیر سلام نماز سے پھر جاوے تب بھی درست۔تیسرے یہ کہ امام پر لازم ہے کہ مقتدیوں کے حالات کا خیال رکھے تاکہ لوگ جماعت سے بد دل نہ ہوجاویں۔خیال رہے کہ یہاں حضور نے حضرت معاذ کو خلافِ ترتیب سورتیں پڑھنے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ بعض شارحین نے سمجھا بلکہ بطور مثال ان سورتوں کا ذکر فرمایا کہ ان جیسی سورتیں اور آیتیں پڑھ لیا کرو۔