أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَوَلَّوۡا عَنۡهُ وَاَنۡـتُمۡ تَسۡمَعُوۡنَ‌ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اس سے اعراض نہ کرو جب کہ تم سن رہے ہو ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اس سے اعراض نہ کرو جب کہ تم سن رہے ہو۔ 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل کا واجب ہونا 

اس آیت میں مسلمانوں سے یہ فرمایا ہے کہ جب تم کسی چیز کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سن رہے ہو تو اس حکم کی اطاعت کرو اور اس حکم سے اعراض نہ کرو۔ اس جگہ یہ نہیں بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ کون سا حکم سن رہے تھے۔ جس کی اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے اور اس سے اعراض کرنا حرام ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس حکم کا ذکر نہ کرکے اس کے عموم پر متنبہ کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کی اطاعت واجب ہے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو کوئی حکم دیں تو ان کے لیے اس حکم پر عمل کرنے یا عمل نہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے : ” وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم و من یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا : اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام فیصلہ کردیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں کوئی اختیار ہو اور جا نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو بیشک وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگیا ” (الاحزاب :36)

اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلی آیتوں میں چونکہ غزوہ بدر اور جہاد کا ذکر آ رہا تھا تو اس قرینہ سے یہاں بھی جہاد کا حکم دینا مراد ہے اور جہاد میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا پڑتا ہے اور اپنے مال کو کرچ کرنا پڑتا ہے اور یہ دونوں چیزیں انسان پر بہت دشوار ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت کی وجہ سے خصوصاً جہاد کے حکم میں آپ کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہرچند کے آپ کے ہر حکم کی اطاعت واجب ہے۔ 

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا واحد ہونا 

اس آیت میں دوسری بحث یہ ہے پہلے فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پھر فرمایا اور اس سے اعراض نہ کرو، چونکہ پہلے دو کی اطاعت کا ذکر ہے اس لیے بہ ظاہر تثنیہ کی ضمیر ذکر کرنی چاہیے تھی یعنی ان سے اعراض نہ کرو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے واحد کی ضمیر ذکر کی ہے۔ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سے اعراض کرتے ہوئے پیٹھ نہ پھیرو اور پیٹھ پھیرنا اور اعراض کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں متصور ہوسکتا ہے اس لیے واحد کی ضمیر ذکر کی اور مراد یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اعراض نہ کرو۔ (تفسیر کبیر ج 5، ص 469، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)

اس کا دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ا کی اطاعت واحد ہے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” من یطع الرسول فق اطاع اللہ : جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی ” (النساء :80)

اس پر متنبہ کرنے کے لیے واحد کی ضمیر ذکر کی ہے کہ اس کی اطاعت سے اعراض نہ کرو۔ اس کی نظیر یہ آیت ہے : ” قد جاء کممن اللہ نور و کتاب مبین۔ یہدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام : بیشک تمہارے پاس آگیا اللہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین۔ اللہ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ پر لاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں۔ ” (المائدہ :15 ۔ 16)

اس آیت میں پہلے دو چیزوں کا ذکر ہے نور اور کتاب مبین (یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید) اس لیے یہاں بھی بہ ظاہر تثنیہ کی ضمیر ذکر کرنی چاہیے تھی۔ یعنی اللہ ان کے ذریعہ۔ لیکن چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کی ہدایت واحد ہے اس پر متنبہ کرنے کے لیے واحد کی ضمیر لائی گئی ہے۔ 

اس کی ایک اور نظیر یہ آیت ہے : واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ : اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق دار ہے کہ اس کو راضی کیا جائے (التوبہ)

یہاں بھی پہلے اللہ اور رسول کا ذکر ہے تو بہ ظاہر تثنیہ کی ضمیر لانی تھی لیکن واحد کی ضمیر لائی گئی ہے تاکہ اس پر متنبہ کیا جائے کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا واحد ہے، الگ الگ نہیں ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 20