أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ لِيَـصُدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ؕ فَسَيُنۡفِقُوۡنَهَا ثُمَّ تَكُوۡنُ عَلَيۡهِمۡ حَسۡرَةً ثُمَّ يُغۡلَبُوۡنَ ؕوَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِلٰى جَهَـنَّمَ يُحۡشَرُوۡنَۙ‏ ۞

ترجمہ:

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے اموال کو اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں، وہ عنقریب اور بھی خرچ کریں گے، پھر یہ ان کے لیے باعث پشیمانی ہوگا پھر یہ مغلوب ہوجائیں گے، اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ دوزخ کی طرف جمع کیے جائیں گے

تفسیر:

36 ۔ 37:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے اموال کو اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں، وہ عنقریب اور بھی خرچ کریں گے، پھر یہ ان کے لیے باعث پشیمانی ہوگا پھر یہ مغلوب ہوجائیں گے، اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ دوزخ کی طرف جمع کیے جائیں گے۔ تاکہ اللہ خبیث کو طیب سے الگ کردے، اور سب خبیثوں کو اوپر تلے رکھے، پھر ان سب کا ڈھیر بنا دے، پھر اس (ڈھیر) کو دوزخ میں ڈال دے، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں “

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی بدنی عبادات کا حال بیان فرمایا کہ ان کی بدنی عبادت سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا ہے۔ اور اب ان آیتوں میں ان کی مالی عبادات کا حال بیان فرما رہا ہے کہ لوگوں کو اللہ کے دین سے روکنے کے لیے یہ مال خرچ کرتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک ان کی مالی عبادت ہے۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کفار اپنا مال مشرکین کو دیتے ہیں تاکہ وہ اس مال کے ذریعے قوت حاصل کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کا یہ مال خرچ کرنا عنقریب ان کے لیے ندامت کا سبب ہوگا۔ کیونکہ ان کے اموال خرچ ہوجائیں گے اور ان کی تمنا پوری نہیں ہوسکے گی۔ کیونکہ ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ اللہ کے نور کو بجھا دیں اور کلمۃ الکفر کو کلمۃ اللہ پر غالب کردیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کلمہ کو بلند کرتا ہے اور کلمۃ الکفر کو پست کرتا ہے پھر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کرنے والوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا اور ان کو عذاب دے گا۔ پھر ان کو اپنے ساتھ زندہ رہنے والون اور مرنے والوں کے انجام پر اور اپنے انجام پر حسرت اور ندامت ہوگی۔ کیونکہ جو کافر ان کے ساتھ زندہ رہے ان کا مال اس جنگ میں ضائع ہوگیا اور وہ غمزہ اور شکست خوردہ لوٹے اور جو ہلاک ہوگئے وہ قتل کیے گئے اور ان کے ہتھیار، سواری اور لباس اتار کر مجاہدین کو دیے گئے اور ان کو بہ عجلت دائمی عذاب اور آگ میں ڈال دیا گیا اور جس شخص نے اس مہم میں مال خرچ کرنے کا انتظام کیا تھا وہ حسب ذیل روایات کے مطابق ابوسیفان ہے۔ 

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

الحکم بن عتیبہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ابوسفیان کے متعلق نازل ہوئی ہے جس نے جنگ احد میں مشرکین کے اوپر چالیس اوقیہ سونا خرچ کیا تھا اور ایک اوقیہ اس وقت 42 مثقال کا تاھ۔ 

محمد بن یحیی، عاصم بن عمر اور الحصین بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں نے کفار پر غلبہ حاصل کرلیا اور کفار شکست خوردہ ہو کر مکہ لوٹے، ادھر ابوسفیان بھی اپنے قافلہ کو لے کر مکہ پہنچ گیا۔ تو عبداللہ بن ربیعہ، عکرمہ بن ابی جہل اور صفوان بن امیہ چند قریش کے ساتھ لے کر ان لوگوں کے پاس تعزیت کے لیے گئے جن کے باپ، بھائی اور بیٹے اس جنگ میں مارے گئے تھے۔ انہوں نے ابو سفیان بن حرب اور قافلہ کے دیگر تاجروں سے کہا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں شکست سے دوچار کیا اور تمہارے بہترین جنگ جوؤں کو قتل کردیا اب تم ان کے خلاف جنگ میں اس مال سے ہماری مدد کرو۔ ہوسکتا ہے کہ دوسری بار جنگ میں ہم اس شکست کی تلافی کرلیں، تو تمام کفار تاجر اس تجویز پر راضی ہوگئے۔ امام ابن جریر نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ مشرکین مسلمانوں پر حملہ کرنے اور لوگوں کو اللہ کے دین سے روکنے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں اور یہ نہیں بتایا کہ وہ ابوسفیان ہے یا کوئی اور، بلکہ بالعموم کفار کے مال خرچ کرنے کی خبر دی ہے۔ اور یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ کس جنگ میں مال خرچ کر رہے تھے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس آیت سے معرکہ بدر میں مال خرچ کرنے والے کافر مراد ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد جنگ احد میں مال خرچ کرنے والے کافر مراد ہوں۔ (جامع البیان جز 9، ص 322 ۔ 324، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

اس کے بعد فرمایا تاکہ اللہ خبیث کو طیب سے الگ کردے اور سب خبیثوں کو اوپر تلے رکھے، پھر ان سب کا ڈھیر بنا دے پھر اس (ڈھیر) کو دوزخ میں ڈال دے، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (الانفال :37)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور مومنین کے درمیان فرق کا ذکر فرمایا ہے اور کفار کو خبیث فرمایا ہے۔ اور مسلمانوں کو طیب فرمایا ہے۔ یہ ان کے درمیان دنیا میں فرق ہے اور آخرت میں فرق یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور کفار کو دوزخ میں داخل فرمائے گا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 36