وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮكُمۡ وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮكُمۡ وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور یاد کرو جب تم کم تعداد میں تھے، زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تم ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں ملیا میٹ کردیں گے تو اللہ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں قوت عطا کی اور پاک چیزوں سے تمہیں روزی تاکہ تم شکر ادا کرو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور یاد کرو جب تم کم تعداد میں تھے، زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے، تم ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں ملیا میٹ کردیں گے تو اللہ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں قوت عطا کی اور پاک چیزوں سے تمہیں روزی تاکہ تم شکر ادا کرو “
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اس کی اطاعت اور شکر گزاری کرے
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طاعت کریں۔ پھر ان کو یہ حکم دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے اجتناب کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو مزید موکد فرمایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہ لوگ تعداد اور قوت میں بہت کم تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کے بعد ان کو بہت قوت اور غلبہ حاصل ہوا، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم تعداد میں کم تھے اور تم کو زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تم دوسرے شہروں میں سفر کرنے سے ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو لٹ لیں گے۔ اللہ نے تمہیں پناہ دی بایں طور کہ تمہیں مکہ سے مدینہ منتقل کیا اور تم کفار کے شر سے محفوظ ہوگئے اور اپنی نصرت سے تمہیں قوت عطا کی یعنی جنگ بدر کے دن کفار پر تمہاری ہیبت طاری کردی۔ جس کے نتیجہ میں وہ تم سے تین گنا زیادہ ہونے کے باوجود شکست کھا گئے اور پاک چیزوں سے تمہیں وزی دی یعنی تمہارے لیے مال غنیمت کو حلال کردیا۔ جبکہ تم سے پہلی امتوں پر وہ حرام تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں سختی سے آسانی کی طرف اور مصیبتوں سے نجات دے کر راحتوں کی طرف متقل کرتا ہے لیکن مسلمان ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کو اپنا شعار نہیں بناتے۔ یاد خدا سے غافل رہتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں حتی کہ جب وہ اپنے اعمال سے خود کو اللہ کی نعمتوں کا نااہل ثابت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمتیں واپس لے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ” وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم و یعفو عن کثیر : اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی کرتوتوں کے سبب پہنچتی ہے اور تمہاری بہت سی خطاوں کو وہ معاف کردیتا ہے “
اندلس میں آٹھ سو سال حکومت کرنے کے بعد وہاں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے حکومت جاتی رہی بلکہ وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور صرف عیسائی بننے والوں کو زندہ رہنے دیا گیا اور اب وہاں پر صرف برائے نام مسلمان ہیں اور سلطنت بغداد کو چنگیز اور ہلاکو نے تاراج کیا۔ برصغیر میں کئی صد سالوں پر محیط مسلمانوں کی حکومت انگریزوں نے ختم کی اور ڈیڑھ سو سال تک مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا اور ماوراء النہر کی مسلم ریاستیں ایک بڑے عرصہ تک روس کی کالونی بنی رہیں اور وہاں اسلام اقدار اور آثار کو بڑی بےدردی سے مٹایا گیا، اور ماضی میں قریب میں پاکستان کو دولخت کیا گیا اور بھارت نے مشرقی پاکستان کو متحدہ پاکستان سے کاٹ کر رکھ دیا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ مسلمانوں نے اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا۔ اسی طرح جو لوگ انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتے اور اس کی نعمتوں کی نہ صرف ناشکری کرتے ہیں بلکہ کفران نعمت کرتے ہیں وہ جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت پر قائم رکھے اور گناہوں سے بچائے اور اپنا شکر گزار بندہ بنائے رکھے۔ (آمین)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 26