أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَلِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ اِنۡ كُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰهِ وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا يَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞

ترجمہ:

اور (اے مسلمانو ! ) یاد رکھو ! تم جتنا بھی مال غنیمت حاصل کرو تو بیشک اس مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے ہے اور (رسول کے) قرابت داروں کے لیے ہے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس (چیز) پر جو اللہ نے اپنے (مکرم) بندے پر فیصلہ کے دن نازل کی جس دن وہ لشکر مقابل ہوئے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے مسلمانو ! ) یاد رکھو ! تم جتنا بھی مال غنیمت حاصل کرو تو بیشک اس مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے ہے اور (رسول کے) قرابت داروں کے یے ہے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس (چیز) پر جو اللہ نے اپنے (مکرم) بندے پر فیصلہ کے دن نازل کی جس دن وہ لشکر مقابل ہوئے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے 

حافظ ابن حجر عسقلانی کی اس آخری بات سے یہ معلوم ہوا کہ جس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کا ذکر ہے اس سے آپ کا لکھنا مراد ہے اور آپ کا لکھنا مراد ہے اور آپکا لکھنا آپ کے معجزہ یا آ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے۔ چناچہ جسٹس محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں : حافظ کا میلان اس طرف ہے کہ اس باب کی حدیث (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا نام لکھنا) اپنے ظاہر پر محمول ہے ‘ اور اس خاص وقت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونے کے باوجود اپنا نام لکھنا آپ کا معجزہ ہے۔

(نکتملتہ فتح المعلم ‘ ج ٣‘ ص ١٨٠‘ مطبوعہ مکتبہ دارالعلوم کراچی ’ ١٤١٤ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس حدیث کو ظاہر پر محمول کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے اور معجزہ کے خلاف ہے اس میں نظر کبیر ہے یعنی بہت بڑا اعتراض ہے ‘ ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ نے اس نظر کبیر کو بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں :

معجزہ قرانیہ وجوہ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اگر اس سے قطع نظر کرلی جاتی کہ قرآن لانے والے امی ہیں ‘ تب بھی یہ معجزہ تھا ‘ اور جب اس پر یہ وصف زائدہ ہوا کہ قرآن کو لانے والے پہلے پڑھتے اور لکھتے نہ تھے تو اس سے اس کا معجزہ ہونا بہ طریق کمال ظاہر ہوا۔ اور معاندین کے اعتراضات منہدم ہوگئے ‘ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتدا ہی سے قاری اور کاتب ہوتے اور قرآن پیش کرتے ‘ تب بھی یہ آپ کا معجزہ ہوتا اور بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

(مرقات ج ٨‘ ص ٧٨‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)

نیز ملا علی قاری دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلاوت کرنا آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے اسی طرح آپ کا لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے ‘ آپ نے جب پہلے لکھے ‘ پڑھے بغیر قرآن مجید کو پیش کیا تو آپ کا معجزہ تھا ‘ پھر آپ نے قرآن مجید میں ایسے علوم پیش کیے جن کو امی نہیں جانتے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ نے ایسے علوم پیش کیئے جن کو تمام علماء نہیں جانتے اور وہ ایسے علوم ہیں کہ اگر آپ بالکل امی نہ ہوتے تو پھر بھی ان علوم کو پیش کرنا آپ کا معجزہ تھا ‘ کیونکہ قرآن معجزات کثیرہ پر مشتمل ہے اور جن لوگوں نے یہ توجیہہ کی ہے کہ آپ کے لکھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا یہ بلاضرورت ظاہر معنی سے عدول کرنا ہے۔ یہاں پر قاضی عیاض کی عبارت ختم ہوئی ‘ (ملا علی قاری کہتے ہیں) اس تو جیہہ میں مجھے قاضی عیاض کے ساتھ توا رد ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ان لوگوں پر ظاہر ہوگیا۔ جنہوں نے میری پہلی تقریر (ج ٨‘ ص ٧٨) کو پڑھا ہوگا۔ (مرقات ج ٨‘ ص ٩٢۔ ١٩‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)

شیخ امین احسن اصلاحی امی کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

امی ‘ مدرسی و کتابی تعلیم و تعلم سے نا آشنا کو کہتے ہیں ‘ امیین کا لفظ اسماعیلی عربوں کے لیے بطور لقب استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مدرسی اور رسمی تعلیم و کتابت سے نا آشنا اپنی بدویانہ سادگی پر قائم تھے۔ اور اسی طرح بنی اسرائیل جو کہ حامل کتاب تھے ان کے مقابل کے لیے امیت ایک امتیازی علامت تھی۔ (الی قولہ) چناچہ قرآن نے اس لفظ کو عربوں کے لیے ان کو اہل کتاب سے محض ممیز کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی پہلو سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نبی امی کالقب استعمال ہوا ہے۔ (تدبر قرآن ج ٢‘ ص ٥٣‘ مطبوعہ فار ان فائونڈیشن ‘ ١٤٠٦ ھ)

یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ نے کسی مدرسہ میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ‘ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو براہ راست لکھنا پڑھنا سکھا دے اور آپ لکھیں اور پڑھیں تو وہ آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے ‘ یا بنو اسرائیل سے امتیاز کے لیے آپ کو امی فرمایا سو یہ بھی آپ کے لکھنے پڑھنے کے خلاف نہیں ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے تمام اہل مکہ کو امین فرمایا حالانکہ ان میں لکھنے پڑھنے والے بھی تھے ‘ کا تیبین وحی تھے اور بدر کے بعض قیدیوں کے پاس فدیہ کے لیے رقم نہیں تھی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا فدیہ یہ مقرر فرمایا کہ وہ انصاری کی اولاد کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢١٦‘ المستد رک ج ٢‘ ص ١٤٠ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 41