وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِۚ فَاِنِ انْـتَهَوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 39
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِۚ فَاِنِ انْـتَهَوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
اور ان کے خلاف جنگ کرتے رہو حتی کہ کفر (کا غلبہ) نہ رہے اور پورا دین (صرف) اللہ کے لیے ہوجائے پس اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ ان کے کاموں کو دیکھنے والا ہے
تفسیر:
39 ۔ 40:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور ان کے خلاف جنگ کرتے رہو حتی کہ کفر (کا غلبہ) نہ رہے اور پورا دین (صرف) اللہ کے لیے ہوجائے پس اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ ان کے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ اور اگر وہ روگردانی کریں تو یقین رکھو کہ بیشک اللہ تمہارا کارساز ہے، وہ کیسا اچھا کارساز اچھا مددگار ہے “
فتنہ کا معنی
اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ اگر یہ کفار اپنے کفر سے باز آگئے تو ان کی بخشش کردی جائے گی اور اگر انہوں نے دوبارہ وہی روش اختیار کی تو جس طرح پچھلی امتوں کو سزا دی گئی تھی ان کو بھی سزا دی جائے گی۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ اگر کفار باز نہیں آتے تو وہ ان سے قتال کریں حتی کہ کفر کا غلبہ نہ رہے۔ اس آیت میں فرمایا ہے کفار سے قتال کرو حتی کہ فتنہ نہ رہے۔ فتنہ کی حسب ذیل تفسیریں کی گئی ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، قتادہ اور سدی سے مروی ہے کہ اس سے مراد شرک ہے۔ اور پورا دین اللہ کے لیے ہوجائے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی وجہ سے تنگ نہ کیا جائے اور شرک اور بت پرستی کی بیخ کنی کردی جائے۔
عروہ بن زبیر نے بیان کیا ہے کہ دعوت اسلام کی ابتداء میں مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کیا جاتا تھا، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد دوسرا فتنہ یہ تھا کہ جب مکہ کی گھاٹیوں میں انصار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت عقبہ کی تو قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں ایذاء دینی شروع کی اور یہ دوسرا فتنہ تھا۔ پھر ہجرت کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ کفار کے خلاف قتال کریں تاکہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلام لانے کی بناء پر مسلمانوں کو تنگ نہ کرسکیں۔ (جامع البیان جز 9، ص 327 ۔ 32، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)
صرف جزیرہ عرب سے کفر کا غلبہ ختم کرنا مقصود ہے یا پوری دنیا سے
اور ” پورا دین اللہ کے لیے ہوجائے ” امام رازی نے لکھا ہے کہ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جزیرہ عرب میں دو دین جمع نہیں ہوں گے۔ اور اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کافروں سے جنگ کرتے رہو حتی کہ تمام دنیا میں شرک نہ رہے اور تمام شہروں میں اسلام قائم ہوجائے۔ ہماری رائے میں اس آیت کا صحیح معنی یہ ہے کہ جب تک دنیا میں کفر کا زور اور شرک کا غلبہ کافروں سے جنگ کرتے رہو۔ اور مسلمان اپنے آپ کو ہر وقت حالت جہاد میں سمجھیں اور ایسے اسباب اور وسائل کے حصول میں کوشاں رہیں جس سے وہ پوری دنیا سے شرک کا قلع قمع کرسکیں اور کافروں کے جن جن علاقوں کو فتح کریں وہاں تبلیغ کرکے کافروں کو مسلمان بنائیں تاکہ ان کی عددی قوت میں اضافہ ہو، اور ہر دور میں جنگ ہتھیاروں کی جو تازہ ایجادات ہوں ان کو حاصل کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سائنسی علوم میں ترقی کریں۔ اس دور میں مسلمانوں کی پس ماندگی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تبلیغ اسلام نہیں کی۔ مغلوں نے ہندوستان پر کئی صدیوں تک حکومت کی لیکن وہ اپنی حکومت کے استحکام میں لگے رہے اور اسلام کی تبلیغ سے غافل رہے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے لیکن مفتوحہ علاقوں میں تبلیغ اسلام کا کوئی انتطام نہیں کیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے جدید سائنسی علوم کے حصول میں کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ پوری دنیا سے کفر اور شرک کا غلبہ ختم کیا جائے اور توحید اور اسلام کا پوری دنیا میں غلبہ ہو اور جب مسلمانوں نے اس حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو وہ دنیا میں مغلوب اور محکوم ہوگئے، بعض علاقے انہوں نے جہاد کے ذریعے فتح ضرور کیے لیکن ویکون الدین کلہ للہ پر عمل نہیں کیا اور کافروں کو مسلمان کرنے کی کوئی موچر کوشش نہیں کی چناچہ وہ علاقے بھی ان کے ہاتھ سے جاتے رہے۔
اس کے بعد فرمایا پس اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ ان کے کامون کو دیکھنے والا ہے اور اگر وہ روگردانی کریں تو یقین رکھو کہ بیشک اللہ تمہارا کارساز ہے۔ یعنی اگر کفار توبہ نہ کریں اور ایمان نہ لائیں تو تم ان کی پرواہ نہ کرو، اللہ تمہارا مولیٰ ہے وہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تم سے مصیبتوں کو دور کرے گا۔ وہ کیسا اچھا کارساز اور کیسا اچھا مددگار ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 39