أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ‌ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں کفار سے الگ اور ممتاز کردے گا اور تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو مٹا دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں کفار سے الگ اور ممتاز کردے گا اور تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو مٹا دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے “

کبیرہ گناہوں کے اجتناب سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں 

اللہ سے ڈرتے رہنے کا معنی ہے تقوی اختیار کیے رہنا۔ اور تقوی کا معنی ہے ایمان لانے کے بعد تمام فرائض اور واجبات کو ادا کرنا اور تمام محرمات اور مکروہات سے اجتناب کرنا۔ تقویٰ کا پہلا مرتبہ مراد ہے یعنی کبیرہ گناہ سے بچنا۔ کیونکہ اس پر جو دوسری جزاء مرتب کی ہے وہ ہے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا۔ اور شرط اور جزاء میں تغایر ہوتا ہے، اس لیے اس آیت کا معنی ہے کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچوگے تو اللہ تمہارے صغیرہ گناہوں کو مٹا دے گا۔ 

مومنوں اور کافروں کا دنیا اور آخرت میں فرق 

اللہ سے ڈرتے رہھنے اور تقوی اختیار کرنے پر جو پہلی جزا مرتب کی ہے وہ ہے تمہیں کفار سے الگ اور ممتاز کردے گا۔ اس سے مراد یا دنیا میں الگ اور ممتاز کرنا ہے یا آخرت میں۔ اگر دنیا میں مسلمانوں کو کافروں سے الگ اور ممتاز کرنا مراد ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں اپنے احوال باطنہ اور احوال ظاہرہ کے لحاظ سے کافر سے ممتاز ہوتا ہے۔ احوال باطنہ سے اس لیے کہ کافر کے دل میں اللہ کا انکار ہوتا ہے اور مسلمان کے دل میں اللہ پر ایمان ہوتا ہے اور کافر کا دل کینہ، بغض، حسد اور مکروفریب سے پر ہوتا ہے اور مومن کا دل ان تمام اوصاف رذیلہ سے پاک اور صاف ہوتا ہے۔ اور مسلمان جس قدر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اس کے دل میں اللہ کی معرفت کا نور بڑھتا جاتا ہے۔ اور جب اس کے دل میں یہ انوار اور تجلیات ہوں تو پھر ان اوصاف رذیلہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور احوال ظاہرہ میں مومن کافر سے اس طرح ممتاز ہوتا ہے کہ مومن کو اللہ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے جبکہ کافر اللہ کی تائید اور نصرت سے محروم ہوتا ہے۔ اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ مومن آخرت میں کافر سے ممتاز ہوگا تو یہ بالکل ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر آخرت میں لطف و کرم فرمائے گا ان کو اجر وثواب عطا فرمائے گا اور جنت میں داخل فرمائے گا اور کافروں کو ذلیل و رسوا کر کے دوزخ میں داخل کردے گا۔ 

پھر فرمایا : اور تم کو بخش دے گا۔ اگر دوسرے جز میں گناہوں کے مٹانے سے مراد صغیرہ گناہوں کا معاف کرنا ہو تو بخشنے کا معنی یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے مسلمانوں کے کبیرہ گناہ بھی بخش دے گا یا اپنے فضل محض سے کبیرہ گناہوں کو بخش دے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گناہوں کو مٹآنے سے مراد دنیا میں گناہوں پر پردہ رکھنا ہو اور بخشنے سے مراد آخرت میں گناہوں کو بالکلیہ زائل کرنا ہو۔ 

جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا میں گنہ گاروں کے لیے شفاعت کردی ہے تو آخرت میں شفاعت کیوں ہوگی ؟

ایک دفعہ مجھ سے ایک عالم نے سوال کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر جمعرات کو مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں جو نیک عمل ہوں میں ان پر اللہ کی حمد کرتا ہوں اور جو گناہ ہوں تو میں تمہارے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں۔ (الوفا باحوال المصطفی ص 801)

اور حضرت جابر (رض) سے ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو، یا جن کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی ہو۔ ان کو جنت کے صحن میں ڈال دیا جائے گا۔ اہل جنت ان کے اوپر پانی چھڑکیں گے۔ پھر ان سے جلن کے آثار دور ہوں گے اور زندگی اور تروتازگی کے آثار نمودار ہوں گے۔ (صحیح مسلم الایمان 316 (191) 461)

تو جب نبی سلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں گنہ گاروں کے لیے استغفار کرلیا تو پھر حشر میں شفاعت کیوں ہوگی ! اور جب دنیا اور قبر میں شفاعت ہوچکی تو پھر بعض گنہ گاروں کو دوزخ میں عذاب کیوں ہوگا ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی کے لیے شفاعت فرمائیں گے جن کی شفاعت کی اللہ آپ کو اجازت دے گا۔ اور یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے بعض گنہ گاروں کی شفاعت کی اجازت آپ کو دنیا میں دے اور بعض کی شفاعت کی اجازت آپ کو حشر میں دے، اور جن کو دوزخ میں ڈالا جائے گا ان کی شفاعت کی اجازت آپ کو نہ دے بلکہ محض اپنا فضل ظاہر فرمانے کے لیے کسی کی شفاعت کے بغیر اپنے مجرد کرم سے ان کو بخش دے اور دوزخ سے نکال لے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی شفاعت کی وجہ سے ان کو صرف صورۃً عذاب ہو اور حقیقتاً عذاب نہ ہو کیونکہ عذاب تو درد کے ادراک اور احساس کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ جب ان کو دوزخ میں ڈالے تو ان کا ادراک اور احساس زائل کردے اور اس کو عذاب کو بالکل پتا نہ چلے جیسے بیہوش کرکے سرجری اور جراحی کا عمل کرتے ہیں تو مریض کو چیر پھاڑ کا بالکل پتا نہیں چلتا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل محض سے ان کو دوزخ سے نکال لے اور ان سے جلنے اور عذاب کے آثار کو دور کردے۔ دوسرا جواب میں نے یہ دیا کہ ہوسکتا ہے دنیا میں آپ ان کی پردہ پوشی یا تخفیف عذاب کے لیے یا قبر کے عذاب سے نجات کے لیے استغفار کریں اور حشر میں بالکلیہ عذاب سے نجات کے لیے استغفار کریں۔ 

اللہ تعالیٰ کا فضل 

اس کے بعد فرمایا : اللہ بڑے فضل والا ہے۔ اور یہ اس کا کتنا بڑا فضل ہے کہ نیکی کرنے کا جذبہ بھی دل میں وہ پیدا کرتا ہے۔ پھر اس نیک کام کو کرنے کے لیے بدن میں طاقت اور منہ میں زبان بھی وہ پیدا کرتا ہے۔ اس نیک کام کے لیے جن دیگر اسباب اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے ان کو بھی وہ پیدا کرتا ہے، اس نیکی کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں ان کو بھی وہ دور کرتا ہے۔ پھر ہم سے کہتا ہے کہ لو یہ تمہارے نیک کاموں کا اجر ہے ! بعض اوقات ایک انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ نیکی کرنا چاہتا ہے لیکن وہ شخص اس نیکی سے استفادہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً وہ ایک بھوکے کو کھانا کھلانا چاہتا ہے لیکن اس کے منہ میں کینسر ہے وہ کھا نہیں سکتا۔ ایک شخص کسی مریض کو صحت یاب کرنے کے لیے بےدریغ پیسہ خرچ کرتا ہے لیکن اس کو کسی دوا سے فائدہ نہیں ہوتا، اور بعض اوقات کوئی مانع اور رکاوٹ نہ ہو لیکن جس کے ساتھ ہم نیکی کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری نیکی قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے تو جس کو ہم نے کھانا کھلا دیا، تو یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے کھانے والے میں کھانے کی صلاحیت پیدا کی۔ ہم نے جس کا علاج کیا تو یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے دواؤں میں شفا کی تاثیر رکھی، اور ہم نے جس کے ساتھ نیکی کی تو یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس نے اس شخص میں ہماری نیکی قبول کرنے پر آمادگی پیدا کی سب کچھ تو اس نے کیا ہے پھر اس کا کتنا فضل ہے کہ ہم سے کہتا ہے کہ لو یہ اپنی نیکیوں کا انعام اور اجر وثواب لے لو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 29