اِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ غَرَّ هٰٓؤُلَاۤءِ دِيۡنُهُمۡؕ وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 49
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ غَرَّ هٰٓؤُلَاۤءِ دِيۡنُهُمۡؕ وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
اور (یاد کرو) جب منافقین اور جن لوگوں کے دلوں میں (کفر کی) بیماری تھی، یہ کہہ رہے تھے ان لوگوں کو ان کے دین نے فریب میں مبتلا کردیا ہے، اور جس نے اللہ پر توکل کرلیا تو بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (یاد رکو) جب منافقین اور جن لوگوں کے دلوں میں (کفر کی) بیماری تھی، یہ کہہ رہے تھے ان لوگوں کو ان کے دین نے فریب میں مبتلا کردیا ہے، اور جس نے اللہ پر توکل کرلیا تو بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہے
اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواوصاف میں سے ایک تیسرا وصف امی ذکر فرمایا ہے ‘ ہم یہاں لفظ امی کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید کی حسب ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے لفظ امی کا ذکر فرمایا ہے۔
قرآن اور سنت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر امی کا اطلاق
الذین یتبعون الرسول النبی الامی (الاعراف : ١٥٧ )
جو لوگ اس رسول ‘ نبی امی کی پیروی کریں۔
فامنو باللہ ورسولہ النبی الامی (الاعراف : ١٥٨ )
اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہیں۔
نیز قرآن مجید میں ہے۔
و منھم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی (البقرہ : ٧٨)
اور ان میں بعض لوگ ان پڑھ ہیں جو زبان سے لفظوں کو پڑھنے کے سوا (اللہ کی) کتاب (کے معانی) کا کچھ علم نہیں رکھتے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ھوالذی بعث فی المیین رسولا منھم (الجمعہ : ٢)
جس نے ان پڑ لوگوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول بھیجا۔
ان کے علاوہ سورت آل عمران میں دو جگہ (٧٥‘ ٢٠) امیین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی اپنے لیے امی کا لفظ استعمال کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩١٣‘ صحیح مسلم الصیام ‘ ١٥ (١٠٨٠) ٢٤٧٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣١٩‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢١٤١‘ السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢٤٥١‘ مسند احمد ج ٢‘ ص ٤٤‘ طبع قدیم ‘ جامع الاصول ج ٦‘ رقم الحدیث : ٤٣٩٣)
امی کا لغوی معنی
علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
امی وہ شخص ہے جو نہ لکھتا ہو اور نہ کتاب سے دیکھ کر پڑھتا ہو۔ اس آیت میں امی کا یہی معنی ہے ” ھوالذی بعث فی المیین رسولا منھم “ قطرب نے کہا امیہ “ کے معنی غفلت اور جہالت ہیں سوامی کا معانی قلیل المعرفت ہیں۔ اسی معنی میں ہے ” ومنہم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی “ یعنی وہ امی ہیں جب تک ان پر تلاوت نہ کی جائے وہ از خود نہیں جانتے۔ فراء نے کہا یہ وہ عرب لوگ ہیں جن کے پاس کتاب نہ تھی اور قرآن مجید میں ہے ” والنبی الامی الدی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل “ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ امین کے نبی تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب سے پڑھتے تھے ‘ اور یہ آپ کی فضیلت ہے کیونکہ آپ حفظ کرنے سے مستغنی تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی ضمانت پر اعتماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” سنقرئک فلا تنسسی “ عنقریب ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ نہیں بھولیں گے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے۔ (المفردات ج ا ‘ ص ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 49