فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّهُمۡ فِى الۡحَـرۡبِ فَشَرِّدۡ بِهِمۡ مَّنۡ خَلۡفَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 57
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّهُمۡ فِى الۡحَـرۡبِ فَشَرِّدۡ بِهِمۡ مَّنۡ خَلۡفَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
پس اگر آپ ان کو میدان جنگ میں پائیں تو ان کو دھتکار دیں تاکہ جو ان کے پیچھے ہیں وہ عبرت حاصل کریں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس اگر آپ ان کو میدان جنگ میں پائیں تو ان کو دھتکار دیں تاکہ جو ان کے پیچھے ہیں وہ عبرت حاصل کریں
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :
غضب اگر واقعی اس درجہ شدت پر ہو کہ حد جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہوگی اور یہ کہ غضب اس شدت پر تھا یا تو گواہان عادل سے ثابت ہو یا وہ اس کا دعویٰ کرے اور اس کی یہ عادت مشہور و معروف ہو تو قسم کے ساتھ اس کا قول مان لیں گے ورنہ مجرد دعویٰ معتبر نہیں۔ یوں تو ہر شخص اس ادعا کرے اور غصہ کی طلاق واقع ہی نہ ہو۔ حالانکہ طلاق نہیں ہوتی مگر بحالت غصہ۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٥ ص ٤٣٩ مطبوعہ سنی دارالاشاعت فیصل آباد)
نیز تحریر فرماتے ہیں :
غصہ مانع وقوع طلاق نہیں بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے تو اسے مانع قرار دینا گویا حکم طلاق کا راسا ابطال ہے۔ ہاں اگر شدت غیظ وجوش غضب اس حد کو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہوجائے خبر نہ رہے کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے تو بیشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز واقع نہ ہوگی۔ (الی قولہ) اور اگر وہ دعویٰ کرے کہ اس تحریر کے وقت میرا غصہ ایسی ہی حالت کو پہنچا ہوا تھا کہ میری عقل بالکل زائل ہوگئی تھی اور مجھے نہ معلوم تھا کہ میں کیا کہتا ہوں کیا میرے منہ سے نکلتا ہے تو اطمینان بندہ کے لیے اس کا ثبوت گواہان عادل سے دے کہ اگرچہ عنداللہ وہ اپنے بیان میں سچا ہو اور اسے عورت کے پاس جانا دیا تہ ردا ہو مگر عورت کو بےثبوت بقائے نکاح اس کے پاس رہنا ہرگز حلال نہیں ہوسکتا تو ضرور ہوا کہ زید اپنے دعویٰ پر گواہ دے یا اگر معلوم و معروف ہے کہ اس سے پہلے بھی کبھی اس کی ایسی حالت ہوگئی تھی تو گواہوں کی کچھ حاجت نہیں مجرد قسم کھا کر بیان کرے ورنہ مقبول نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٥ ص ٢٣٣۔ ٤٣٢ مطبوعہ فیصل آباد)
علامہ خیرالدین رملی حنفی متوفی ١٠٨١ ھ لکھتے ہیں :
شرح الطحاوی سے نقل کرکے تاتارخانیہ میں یہ تصریح کی ہے کہ مدہوش کی طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح محقق ابن ھمام نے فتح القدیر میں اور علامہ تمرتاشی غزی نے اپنے متن تنویر الابصار میں یہ تصریح کی ہے۔ فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ غیر عاقل کی طلاق واقع نہیں ہوتی سوا اس کے کہ اس کی عقل نشہ کے سبب سے زائل ہو جو کہ معصیت ہے تو اس صورت میں بہ طور سزا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ غیر عاقل میں ہر وہ شخص داخل ہے جس کی عقل ان امور سے زائل ہوتی ہو۔ جنون عتھ برسام اغمار (بےہوشی) اور دھش جنون ایک مشہور بیماری ہے اور عتھ کا معنی ہے کم فہمی اور کلام کا غلط اور صحیح ہونا اور تدبیر کا فسادیہ عقل کے اختلال کی وجہ سے ہوتا ہے کبھی وہ عقل مندوں کی طرح کلام کرتا ہے اور کبھی مجنونوں کی طرح اور برسام ایک بیماری ہے جس میں بیمار ہذیان بکتا ہے (بےسروپاباتیں کرتا ہے) اور دھش کا معنی ہے عقل جاتی رہے بھول اور غفلت کی وجہ سے یاعشق کی وجہ سے اور جس نے مدہوش کی تفسیر حیرت زدہ کی ہے اس نے غلطی کی قاموس میں لکھا ہے کہ مدہوش وہ شخص ہے جس کی عقل ذہول یا عشق کی وجہ سے جاری رہی۔
مجنون کے متعلق حکم یہ ہے کہ جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کو جنون ہوچکا ہے اور اس نے طلاق دی اور اس نے کہا مجھے دوبارہ جنون ہوا اور میں نے طلاق دی تو اس کی قسم کے ساتھ اس کا قول قبول کرلیا جائے گا اور اگر پہلے اس کو جنون نہ ہوا ہو تو اس کا قول قبول نہیں کیا جائے گا۔ خانیہ تاتار خانیہ اور دیگر کتب میں اسی طرح ہے مدہوش کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ اگر ایک مرتبہ پہلے وہ مدہوش ہوچکا ہے تو قسم کے ساتھ اس کا قول قبول کرلیا جائے گا اور اگر وہ پہلے مدہوش نہیں ہوا تو قضاء اس کا قول قبول نہیں ہوگا ہاں گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوجائے گا اور دیانتہً اس کا قول قبول ہوجائے گا۔
(الفتاویٰ الخیریہ علی ھامش الحامدیہ ج ا ص ٦٨۔ ٦٧ مطبوعہ کوئٹہ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 57