وَاِذۡ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَـكُمُ الۡيَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىۡ جَارٌ لَّـكُمۡۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيۡهِ وَقَالَ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّنۡكُمۡ اِنِّىۡۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَؕ وَاللّٰهُ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 48
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذۡ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَـكُمُ الۡيَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىۡ جَارٌ لَّـكُمۡۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيۡهِ وَقَالَ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّنۡكُمۡ اِنِّىۡۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَؕ وَاللّٰهُ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ ۞
ترجمہ:
اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کے کاموں کو ان کے لیے خوش نما بنادیا اور کہا آج لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا اور بیشک میں تمہارا رفیق ہوں، اور جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو وہ ایڑیوں کے بل بھاگا اور کہنے لگا میں تم سے بری الذمہ ہوں بیشک میں ان کو دیکھ رہا ہوں جن کو تم نہیں دیکھتے، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کے کاموں کو ان کے لیے خوش نما بنادیا اور کہا آج لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا اور بیشک میں تمہارا رفیق ہوں، اور جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو وہ ایڑیوں کے بل بھاگا اور کہنے لگا میں تم سے بری الذمہ ہوں بیشک میں ان کو دیکھ رہا ہوں جن کو تم نہیں دیکھتے، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے
علامہ ابن اثیر جزری متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے ” انا امۃ لا نکتب ولا تحسب “ ہم اہل عرب امی ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ” آپ کی مراد یہ تھی کہ ہم اسی طرح ہیں جس طرح اپنی مائوں سے پیدا ہوئے تھے۔ یعنی اپنی جبلت اولیٰ پر ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امی وہ ہے جو لکھتا نہ ہو۔ نیز حدیث میں ہے بعثت الی امۃ امیۃ “ میں امی امت کی طرف بھیجا گیا ہوں “ یا امی سے عرب مراد ہیں کیونکہ عرب میں لکھنا بالکل نہ تھا یا بہت کم تھا۔ (النہایہ ج ١‘ ص ٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ یعنی اپنی ماں سے پیدائش کی اصل پر ہیں۔ لکھنا سیکھا ہے نہ حساب کرنا۔ تو وہ اپنی اصل جبلت پر ہیں اور اسی نہج پر ہے امیین میں رسول بھیجا گیا۔ علامہ کرمانی نے کہا اس میں ام القریٰ کی طرف نسبت ہے یعنی مکہ والوں کی طرف۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عرب میں لکھنے والے بھی تھے اور ان میں سے اکثر حساب جاننے والے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لکھنا نہیں جانتے تھے اور حساب سے مراد ستاروں کا حساب ہے اور وہ اس کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ علامہ طیبی نے کہا کہ ابن صیاد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ امین کے رول ہیں اس شیطان کا مطلب یہ تھا کہ آپ صرف عرب کے رسول ہیں دوسروں کے نہیں۔
(مجمع بحارالانوار ج ١‘ ص ١٠٧‘ مطبوعہ مکتبہ دارالامان ‘ المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
قاموس میں ہے امی وہ شخص ہے جو لکھتا نہ ہو یا اپنی ماں سے پیدائش کے حال پر باقی ہو اور امی غبی اور قلیل الکلام کو بھی کہتے ہیں۔ اس کی تشریح میں علامہ زبیدی لکھتے ہیں : حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا جاتا ہے کہ عرب قوم لکھتی تھی نہ پڑھتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا در آنحالیکہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب کو پڑھتے تھے۔ اور یہ آپ کا معجزہ ہے کیونکہ آپ نے بغیر کسی تغیر اور تبدل کے بار بار قرآن مجید کو پڑھا۔ قرآن مجید میں ہے ” وما کنت تتلو من قبلہ من کتاب “ (الایۃ) حافظ ابن حجر عسقلانی نے احادیث رافعی کی تخریج میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لکھنے اور شعر گوئی کو حرام کردیا گیا تھا۔ یہ اس وقت ہے اگر آپ شعر گوئی اور لکھنے کو اچھی طرح بروئے کار لاتے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ کو شعر اور خط میں مہارت تو نہیں تھی لیکن آپ اچھے اور برے شعر میں تمیز رکھتے تھے۔ اور بعض علماء کا یہ دعویٰ ہے کہ پہلے آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن بعد میں آپ نے لکھنا جان لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما کنت تتلوا من قبلہ (الایہ) آپ سے پہلے نہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اور ” اس سے پہلے “ کی قید کا یہ معنی ہے کہ بعد میں آپ نے اس کو جان لیا ‘ کیونکہ آپ کا پہلے نہ جاننا معجزہ کے سبب سے تھا اور جب اسلام پھیل گیا اور لوگوں کے شکوک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ نے اس کو جان لیا ‘ اور امام ابن ابی شیبہ اور دیگر محدثین نے مجاہد سے روایت کیا ہے ” مامات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی کتب وقرء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے لکھ نہیں لیا ‘ اور پڑھ نہیں لیا اور مجاہد نے شعبی سے کہا ‘ اس آیت میں اس کے خالف نہیں ہے۔ ابن وحیہ نے کہا کہ علامہ ابوذر ‘ علامہ ابو ذر ‘ علامہ ابوالفتح نیشاپوری اور علامہ باجی مالکی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ علامہ باجی نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ‘ بعض افیقی علماء نے بھی علامہ باجی کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ امی ہونے کے بعد لکھنے کو جان لینا معجزہ کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے ‘ کیونکہ بغیر کسی انسان کے سکھائے کتاب کو پڑھنا اور لکھنا بھی معجزہ ہے۔ ابو محمد بن مفوز نے علامہ باجی کی کتاب کا رد لکھا ہے اور علامہ سمنانی وغیرہ نے کہا ہے کہ آپ بغیر علم کے لکھتے تھے ‘ جیسے بعض ان پڑھ بادشاہ بعض حروف لکھ لیتے تھے حالانکہ ان کو حروف کی تمیز اور شناخت نہیں ہوتی تھی۔ (تاج العروسج ٨‘ ص ١٩١‘ مطبوعہ المطبعہ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 48