أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ اِذۡ يُرِيۡكُمُوۡهُمۡ اِذِ الۡتَقَيۡتُمۡ فِىۡۤ اَعۡيُنِكُمۡ قَلِيۡلًا وَّيُقَلِّلُكُمۡ فِىۡۤ اَعۡيُنِهِمۡ لِيَـقۡضِىَ اللّٰهُ اَمۡرًا كَانَ مَفۡعُوۡلًا ؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ۞

ترجمہ:

اور (یاد کرو) جب تم سے مقابلہ کے وقت تمہیں کفار کی تعداد کم دکھائی اور تمہاری تعداد (بھی) ان کو کم دکھائی تاکہ اللہ اس کام کو پورا کردے جو اس کے نزدیک کیا ہوا ہے، اور اللہ ہی کی طرف تمام معاملات لوٹائے جاتے ہیں۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (یاد کرو) جب تم سے مقابلہ کے وقت تمہیں کفار کی تعداد کم دکھائی اور تمہاری تعداد (بھی) ان کو کم دکھائی تاکہ اللہ اس کام کو پورا کردے جو اس کے نزدیک کیا ہوا ہے، اور اللہ ہی کی طرف تمام معاملات لوٹائے جاتے ہیں۔

حضرت براء بن عازب ص کے علاوہ یہ حضرت عباس ‘ حجرت عائشہ ‘ حضرت انس ‘ حضرت ابو حمید ساعدی اور حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) عمہم کی روایات ہیں اور یہ سب صحاح ستہ کی روایات ہیں ‘ ان میں سے کسی حدیث کی سند ضعیف نہیں ہے ‘ اور ان تمام احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کی تصریح ہے اور ان سب کی یہ تاویل کرنا کہ لکھنے سے مراد لکھنے کا حکم دینا ہے صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ مجاز ہے اور جب تک کوئی عقلی یاشرعی استحالہ نہ ہو کسی لفظ کو حقیقت سے ہٹا کر مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں ہے اور بلا وجہ حدیث کے الفاظ کو اپنی مرضی کا معنی پہنانا محض اتباع ہوس ہے ‘ خصوصاً اس صورت میں جب کہ قرآن مجید سے نزول قرآن کے بعد آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ‘ نیز لکھنا اور پڑھنا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور کمال ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کیا مت کو توبہ نعمت عطا فرمائے اور آپ کو اس نعمت سے محروم رکھے ‘ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ کو لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا تھا تو لازم آئے گا کہ اس نعمت اور کمال میں امت آپ سے بڑھ جائے اور یہ کسی طرح جائز نہیں ہے ‘ امت کو اپنے نبی پر مطلقاً فضیلت نہیں ہوتی ‘ جزی نہ کلی۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کے متعلق محدثین کی تحقیق 

علامہ ابو العباس احمد بن عمرالقرطبی المالکی التموفی ٦٥٦ ھ حضرت براء بن عازب ص سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا محمد بن عبداللہ اور ایک روایت میں ہے آپ نے یہ لکھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے (صحیح البخاری ٤٢٨١‘ ٢٦١٩) علامہ السمنانی ‘ علامہ ابوزر اور باجی نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا ہے اور ان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لکھنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اور نہ اس آیت کے معارض ہے ‘ اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ (العنکبوت : ٤٨) اور نہ اس حدیث کے خلاف ہے ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم ٧٦١‘ سنن ابودائود ٢٣١٩) بلکہ ان کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کے معجزہ کا اور زیادہ ہونا ہے ‘ اور یہ آپ کے صدق اور آپ کی رسالت کی اور قوی دلیل ہے ‘ آپ نے کسی سے سیکھے بغیر اوعر اس کے عادی اسباب کے حصول کے بغیر لکھا ہے لہذا یہ اپنی جگہ ایک الگ معجزہ ہے ‘ اور جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے پڑھے بغیر اور علم کے دیگر اسباب حاصل کیے بغیر لکھنا بھی آپکے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور اعلیٰ درجہ کی فضلیت ہے ‘ اسی طرح کسی سے سیکھے بغیر لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا اس وقت آپ نے چند لکیریں ڈالی ہوں اور ان کا مفہوم محمد بن عبداللہ ہو ‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ان حروف کی شناخت ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی شناخت نہ ہو اور ہر تقدیر پر آپ سے امی کا لقب ساقط نہیں ہوگا ‘ اندلسی اور اندلس کے علاوہ دوسرے ممالک کے علماء نے اس نظریہ کی مخالفت کی بلکہ علامہ باجی کی تکفیر کی لیکن یہ درست نہیں ہے اور شریعت میں اس پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے۔

(المفہم ج ٤‘ ص ٦٣٨ ا ٔ٦٣٧‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی المتوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں :

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اس حدیث سے علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر یہ لکھائی جاری کردی ‘ یا تو آپ کے علم کے بغیر قلم نے لکھ دیا یا اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے لکھنے کا علم دے دیا اور آپ کو پڑھنے والا بنادیا جب کہ آپ اعلان نبوت کے بعد پڑھتے نہ تھے ‘ اور اس سے آپ کے امی ہونے پر اعتراض نہیں ہوتا اور انہوں نے اس موقف پر شعبی کی روایات سے استدلال کیا ہے ‘ اوعر بعض سلف سے منقول ہے کہ جب تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھ نہیں لیا آپ کی وفات نہیں ہوئی ‘ اور اکثر علماء نے یہ کہا ہے کہ آپ کا لکھنا مطقاً ممنوع ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ (العنکبوت : ١٤٨) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے استدال کیا ہے : ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں ‘ نہ حساب کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم : ٧٦١‘ ابودائود ‘ ٢٣١٩) اور بخاری اور مسلم کی حدیث میں جو ہے کہ آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس کا معنی ہے کہ آپ نے اس کے لکھنے کا حکم دیا ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرت ماعز (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحم کیا ‘ یا آپنے چور کے ہاتھ کاٹے یا شرابی کو کوڑے لگائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 44