أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَوۡلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمۡ فِيۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ۞

ترجمہ:

اگر پہلے سے (مال غنیمت کو حلال کرنے کا) حکم لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی وجہ سے بڑا عذاب ہوتا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اگر پہلے سے (مال غنیمت کو حلال کرنے کا) حکم لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی وجہ سے بڑا عذاب ہوتا 

علامہ شمس الدین مقدسی محمد بن مفلح حنبلی متوفی ٧٦٣ ھ لکھتے ہیں :

صاحب النظم نے ذکر کیا ہے کہ جس شخص کو تکبر کا خوف نہ ہو اس کے لیے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا مکروہ نہیں ہے اور اولیٰ اس کو ترک کرنا ہے۔ (کتاب الفروع ج ١ ص ٣٤٤ مطبوعہ عالم الکتب بیروت ١٤٠٥ ھ)

ان کثیر حوالہ جات سے یہ واضح ہوگیا کہ اگر تکبر اور اکڑ کر چلنے کی نیت کے بغیر تہبند یا شلوار یا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی یا خلاف اولیٰ ہے۔ البتہ شلوار یا پاجامہ یا تہبند انسان کی قامت اور اس کے قد سے لمبا نہ ہو کہ قدموں کے نیچے سے گھسٹ رہا ہو اگر ایسا ہو تو یہ علامہ ابن عبدالبر کی تصریح کے مطابق مذموم ہوگا بلکہ اسراف اور زمانہ قدیم کی عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہوگا۔

ٹخنوں سے نیچے پائنچے لٹکانے میں علماء دیوبند کا موقف :

(سوال ١١١٤) زید کا خیال ہے کہ ازار تحت الکعین ممنوع اس وقت ہے جب کہ براہ تکبر وخیلاء ہو جیسا کہ عرب کا دستور تھا کہ اس پر فخر کیا کرتے تھے اور جب کہ تکبرانہ ہو محض خوبصورتی اور زینت کے لیے ایسا کرے تو جائز ہے (الی قولہ) چناچہ احادیث میں اکثر یہ قید مذکور ہے کہ من جرازارہ خیلاء (جس نے اپنے تہبند کو تکبر سے گھسیٹا) وغیرہ میں خیلاء کی قید ضرور ہے اور جو حدیثیں مطلق ہیں جیسے ما اسفل منن الکعبین ففی النار (جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو وہ دوزخ میں ہے) وہ بھی حسب دستور عرب اسی قید پر محمول ہیں اور مطلق کا مقید پر محمول نہ ہونا اس وقت ہے جبکہ مطلق ومقید دونوں دو واقعہ پر آئے ہوں جیسے کفارہ قتل و کفارہ ظہار اور اتحاد واقعہ کے وقت حسب اصول حنفیہ مطلق مقید پر محمول ہوجاتا ہے جیسے کفارہ قسم کا۔ قرأت ابن مسعود میں متتابعات کے ساتھ مقید ہوجانا۔ نیز اس کی مویدوہ حدیث ہے کہ حضرت نے ما اسفل من الکعبین کی وعید بیان کی اور فرمایا : من جر ثوبہ خیلاء لن ینظر اللہ الیہ یوم القیامہ (جس نے تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا گھسیٹا قیامت کے دن اللہ اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا) تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری ازار لٹک پڑتی ہے الا ان اتعاھد (مگر یہ کہ میں اس کی دیکھ بھال کروں) تو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں (رواہ البخاری کذافی المشکوۃ) پس اگر مطلقاً جرازار (تہبند گھسیٹنا) ممنوع ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ دیتے تو معلوم ہوا کہ یہ وعید خیلائ (تکبر) ہی کی صورت ہے اور بلا اس کے جائز ہے اس شبہ کا حل مطلوب ہے۔

شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

نورالانوار میں ایک حکم میں مطلق کو مقید پر محمول کرنے ی بحث میں ہے : صدقہ فطر کے سبب میں دو نیس وارد ہیں اور اسباب میں کوئی مزاحمت نہیں ہے پس ان کے درمیان جمع کرانا واجب ہے یعنی ہم نے جو کہا ہے کہ حادثہ واحدہ اور حکم واحد میں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا یہ اس وقت ہے جب مطلق اور مقید دونوں حکم میں وارد ہوں تضاد کی وجہ سے لیکن جب مطلق اور مقید اسباب یا شروط میں وارد ہوں تو پھر کوئی مضائقہ اور تضاد نہیں ہے پس یہ ممکن ہے کہ مطلق اپنے اطلاق کے ساتھ سبب ہو اور مقید اپنی تقسید کے ساتھ سبب ہو اور مانحن فیہ (زیر بحث صورت) میں حکم معصیت ہے اور مطلق جر اور جر للحیلاء اسباب اس کے ہیں یہاں مطلق کو مقید پر محمول کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے پس مطلق جر کو بھی حرام کہیں گے اور جو للحیلاء کو بھی۔ (مطلق تہبند گھسیٹنا بھی حرام ہے اور تکبر کی وجہ سے گھسٹینا بھی حرام ہے) ۔

(امداد الفتاویٰ ج ٤ ص ١٢٢، ١٢١۔ مطبوعہ مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

مطلق کو مقید پر محمول کرنے یا نہ کرنے کے قواعد :

شیخ تھانوی کا مذکور جواب صحیح نہیں ہے۔ اس جواب کا رد کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ فقہاء احناف کے نزدیک مطلق کو مقید پر محمول کرنے اور نہ کرنے کے قواعد کی وضاحت کردیں تاکہ عام قارئین بھی اس مسئلہ کو آسانی سے سمجھ لیں۔ فقہاء احناف کے نزدیک جب کسی واقعہ میں ایک حکم ایک جگہ مطلق ہو اور دوسری جگہ مقید ہو تو مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے ورنہ حکم میں تضاد ہوگا۔ ایک جگہ مطلق ہے اور ایک جگہ مقید ہے اس کی یہ مثال ہے :

اللہ تعالیٰ نے قسم توڑنے کا کفارہ بیان فرمایا کہ وہ دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلائے یا ان کو کپڑے پہنائے یا ایک غلام آزاد کرے پھر اس کے بعد فرمایا :

فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام :

اور جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو وہ تین دن کے روزے رکھے۔

(المائدہ : ٨٩)

اس آیت میں تین دن کے روزے مطلق ہیں لیکن حضرت ابن مسعود (رض) کی قرأت میں ہے فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات تین دن کے مسلسل روزے۔ پہلا حکم مطلق تھا اور دوسرا حکم مقید ہے۔ اب اگر مطلق کو مقید پر محمول نہ کیا جائے تو حکم میں تضاد لازم آئے گا۔ اس لیے یہاں مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے اور تین دن کے پے درپے روزے رکھنا قسم کا کفارہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب مطلق اور مقید حکم میں وارد ہوں تو مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے لیکن جب مطلق اور مقید سبب میں وارد ہوں مثلاً ایک واقعہ میں ایک جگہ حکم کا سبب مطلق ہے اور دوسری جگہ اس واقعہ میں حکم کا سبب مقید ہے تو اب مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ ایک حکم کئی سبب ہوسکتے ہیں تو جائز ہے کہ ایک سبب مطلق ہو اور دوسرا سبب مقید ہو اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے : ہر آزاد اور غلام کی طرف سے صدقہ فطرادا کرو اور دوسری حدیث میں ہے : ہر آزاد اور مسلمان غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرو۔ پہلی حدیث میں مطلق غلام کا ذکر ہے اور دوسری حدیث میں مقید ہے یعنی مسلمان غلام کا ذکر ہے اب مطلق کو مقید پر نہیں محمول کیا جائے گا کیونکہ صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا سبب سر (شخص) ہے پہلی حدیث میں اس حکم کا سبب مطلق سر یعنی (مطلق) غلام ہے اور دوسری حدیث میں مقید سر (شخص) یعنی مسلمان غلام اس حکم کا سبب ہے اور ایک حکم کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ ان میں تضاد نہیں ہے اس لیے یہاں مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا۔

(نورالانوارص ١٦٠۔ ١٥٩، مطبوعہ کراچی التوضیح والتلویح ج ا ص ١٢٢ مطبوعہ کراچی تیسیر الحتریر ج ا ص ٣٣٤، ٣٣٠ کشف الاسرارج ٢ ص ٥٣٥، ٥٣٤) ۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 68