أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَهَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا مَعَكُمۡ فَاُولٰۤئِكَ مِنۡكُمۡ‌ؕ وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا سو وہ بھی تم میں سے ہیں اور اللہ کی کتاب میں قرابت دار (بہ طور وراثت) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا سو وہ بھی تم میں سے ہیں اور اللہ کی کتاب میں قرابت دار (بہ طور وراثت) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے “

ہجرت کی تعریف اور ہجرت کے متعلق مختلف النوع احادیث 

اس آیت سے وہ مسلمان مراد ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کے بعد ہجرت کی۔ اور اس ہجرت کا مرتبہ پہلی ہجرت سے کم ہے۔ حدیبیہ کے بعد دو سال تک صلح کا زمانہ رہا پھر مکہ فتح ہوگیا اور ہجرت بھی ختم ہوگئی۔ ہجرت کی تعریف یہ ہے در الکفر سے دار الاسلام کی طرف نکلنا یا دار الخوف سے دار الامن کی طرف نکلنا۔ جیسے مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ یا حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ایک قول یہ ہے کہ شہوات، منکرات، اخلاق ذمیمہ اور معاصی کو ترک کرنا ہجرت ہے۔ (المفردات، ج 2، ص 698)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1834 ۔ صحیح مسلم الحج 445 (1453) 3244 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 2018 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1596 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 2874 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 3857 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2773)

حضرت مجاشع بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بھائی حضرت مجاہد کو لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یہ مجاہد ہیں جو آپ سے ہجرت پر بیعت کریں گے، آپ نے فرمایا فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن میں اس کو اسلام پر بیعت کروں گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3078 ۔ 3079، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبید بن عمر لیثی کے ہمراہ حضرت عائشہ (رض) کی زیارت کی۔ ہم نے آپ سے ہجرت کے متعلق سوال کیا حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اب ہجرت نہیں ہے، پہلے مسلمان اپنے دین کے سبب سے اللہ اور رسول کی طرف بھاگتے تھے، کیونکہ ان کو یہ خوف تھا کہ وہ اپنے دین کی وہ سے کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہوجائیں، لیکن اب اللہ تعالیٰ اسلام کو غلبہ عطا فرما چکا ہے، اب مسلمان جہاں چاہیں اپنے رب کی عبادت کریں البتہ جہاد اور نیت باقی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3900، مطبوعہ بیروت)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ اعرابی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ آپ کی طرف ہجرت کرنے کی کون سی جگہ ہے ؟ آپ جہاں کہیں ہوں یا کسی خاص جگہ پر ؟ آیا کسی خاص قوم پر ہجرت فرض ہے ؟ یا جب آپ رحلت فرما جائیں گے تو ہجرت منقطع ہوجائے گی ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ساعت خاموش رہے، پھر آپ نے فرمایا وہ سائل کہا ہے ؟ اس نے کہا میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا جب تم نماز پڑھو، اور زکوۃ ادا کرو تو تم مہاجر ہو خواہ تم ارض یمامہ میں فوت ہو، اور ایک روایت میں ہے کہ ہجرت یہ ہے کہ تم ظاہر اور باطن میں بےحیائی کے کام ترک کردو اور نماز پڑھو اور زکوۃ ادا کرو تو پھر تم مہاجر ہو۔ (مسند البزار، رقم الحدیث : 1750)

حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک کہ توبہ منقطع نہ ہو، اور توبہ اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 2479، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1414 ھ)

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہاجر وہ ہے جو اللہ کے منع کیے ہوئے کاموں کو ترک کردے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 10)

حضرت خالد بن ولید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے ساتھ رہے، ان کے (چولہوں میں) ایک ساتھ آگ جلتی ہوئی نہ دیکھی جائے۔ (المعجم الکبیر ج 4، رقم الحدیث : 3836، حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد ج 5، ص 253)

حضرت زبیر بن عوام (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے یہ زمین اللہ کی زمین ہے اور یہ لوگ اللہ کے بندے ہیں، جس جگہ تم کو خیر ملے وہاں رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ (المعجم الکبیر ج 1، رقم الحدیث : 250، حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں بعض راویوں کو میں نہیں پہچانتا، مجمع الزوائد ج 5، ص 255)

ہجرت کے مختلف معانی 

علامہ مجد الدین المبارک بن محمد بن اثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں 

حدیث میں ہجرت کا بہت زیادہ ذکر ہے، ایک حدیث میں ہے فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3079 ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : 1353 ۔ مسند احمد ج 1، ص 226)

اور ایک حدیث میں ہے : ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک کہ توبہ منقطع نہ ہو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 226، مسند احمد ج 1، ص 192)

ہجر کا لغوی معنی وصل کی ضد ہے یعنی فراق، پھر اس کا غالب اطلاق ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف نکلنے اور دوسری زمین کی خاطر پہلی زمین کو ترک کرنے پر کیا جانے لگا۔ 

ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک ہجرت وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے :

ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ : بیشک اللہ نے مسلمانوں کی جانوں اور ان کے مالوں کو جنت کے بدلہ خرید لیا (التوبہ :111)

ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنے اہل و عیال اور مال چھوڑ کر آجاتا اور ان میں سے کسی چیز کی طرف رجوع نہ کرتا اور جس جگہ ہجرت کی تاحیات وہیں رہتا۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص اس جگہ مرجائے جہاں سے اس نے ہجرت کی تھی۔ اسی بنا پر آپ نے حضرت سعد بن خولہ کی مکہ میں موت پر افسوس کیا وہ حج کے لیے مدینہ سے مکہ آئے اور وہیں فوت ہوگئے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1295)

اور جب آپ مکہ میں آئے تو آپ نے دعا کی اے اللہ ! ہمیں مکہ میں موت نہ دینا۔ (مسند احمد ج 2 ص 25) اور جب مکہ دار الاسلام بن گیا تو وہ مدینہ کی طرح ہوگیا اور ہجرت منقطع ہوگئی۔ 

ہجرت کی دوسری قسم وہ ہے جو دیہاتیوں نے ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے لیکن انہوں نے اس طرح کے افعال نہیں کیے جس طرح پہلی ہجرت کرنے والوں نے کیے تھے، پس وہ مہاجر تو ہیں لیکن مہاجرین اولین کی فضیلت میں داخل نہیں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا ہے ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک کہ توبہ سے منقطع نہ ہو اس سے یہی ہجرت مراد ہے۔

ان ہی احادیث میں سے ایک یہ حدیث ہے ہجرت کرو اور تکلف اور تصنع سے مہاجر نہ بنو۔ یعنی اللہ کے لیے اخلاص سے ہجرت کرو اور بغیر صیح ہجرت کے مہاجرین کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ ان احادیث میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ہجرت (ترک تعلق و ترک سلام و کلام) کرے۔ (صحیح مسلم البر والصلہ، 25، 2560، 6412 ۔ مسند احمد ج 2، ص 378)

اس ہجرت سے وصل کی ضد مراد ہے۔ یعنی ایک مسلمان دوسرے کسی مسلمان کسی دنیاوی کوتاہی کی بناء پر اس سے ترک تعلق نہ کرے البتہ دین میں کسی بدعقیدگی کی بناء پر یا کسی غیر شرعی کام کی بناء پر ترک تعلق جائز ہے، کیونکہ اہل اھواء اور اھل بدعت سے دائمی ہجرت (ترک تعلق) رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص علانیہ معصیت سے توبہ نہ کرے اس سے ہجرت ضروری ہے، کیونکہ جب حضرت کعب بن مالک اور ان کے دیگر اصحاب نے بلا عذر غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سملمان کو حکم دیا کہ وہ ان سے ہجرت کرلیں یعنی ترک تعلق کریں حتی کہ ان کی ازواج کو بھی ان سے ترک تعلق کا حکم دیا، مسلمانوں نے پچاس دن تک ان سے ترک تعلق رکھا اور ان کی ازواج نے ان سے ایک ماہ تک، اور حضرت عائشہ نے ایک ماہ تک حضرت ابن الزبیر سے ترک تعلق رکھا۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے بعض لوگ اللہ کا ذکر صرف اس حال میں کرتے ہیں کہ وہ مہاجر ہوتے ہیں یعنی ان کے قلب نے زبان سے ہجرت کی ہوئی ہوتی زبان ذکر کرتی ہے اور دل غافل ہوتا ہے، یعنی وہ اخلاص سے اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔ (النہایہ ج 5، س 2111 ۔ 213، مطبعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1418 ھ)

ہجرت کی مختلف النوع احادیث میں تطبیق 

ہجرت سے متعلق جن احادیث کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان میں سے بعض احادیث میں یہ صراحت ہے کہ ہجرت کبھی منقطع نہیں ہوگی اور بعض میں یہ وضاحت ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت منقطع ہوجائے گی، بعض احادیث میں ہے کہ مسلمان زمین پر کہیں بھی قیامت کرسکتا ہے اور بعض میں مشرکین کے ساتھ قیام کی ممانعت ہے اور بعض احادیث میں تصریح ہے کہ ہجرت تو صرف گناہوں کو ترک کرنا ہے۔ علامہ بدر الدین عینی نے ان متعارض احادیث کے حسب ذیل جوابات ذکر کیے ہیں :

1 ۔ جن احادیث میں فتح مکہ کے بعد ہجرت منقطع ہونے کا بیان ہے وہ صحاح کی احادیث ہیں اور جن احادیث میں قیامت تک ہجرت باقی رہنے کا ذکر ہے وہ سنن کی روایات ہیں اور صحاح کی احادیث کو سنن کی روایات پر ترجیح ہے۔ 

2 علامہ خطابی نے کہا ہے کہ ابتداء اسلام میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرض تھی، اب یہ فرضیت منسوخ ہوگئی اور جو ہجرت قیامت تک باقی رہے گی وہ مستحب ہے۔ 

3 ۔ علامہ ابن اثیر نے کہا ہے کہ ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک قسم یہ ہے کہ ایک شخص اپنے وطن، اہل و عیال اور مال سے ہجرت کرکے مدینہ چلا جاتا اور کبھی ان چیزوں کی طرف واپس نہ لوٹا اس ہجرت پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے بعد یہ ہجرت مسنوخ ہوگئی۔ ہجرت کی دوسری قسم یہ ہے کہ کفار کے علاقہ سے ہجرت کر کے مسلمانوں کے علاقہ میں آجائے اور میں ہجرت کی پہلی قسم کی طرح شدت نہیں ہے۔

4 ۔ کفار کے علاوہ سے مسلمانوں کے علاقہ کی طرف ہجرت منسوخ ہوگئی اور جو ہجرت باقی ہے وہ گناہوں سے ہجرت کرنا اور ان کو ترک کرنا ہے۔

5 ۔ جس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے ساتھ رہنے سے بیزاری کا اظہار فرمایا ہے اس سے مراد وہ جگہ ہے جہا رہنے سے مسلمانوں کو اپنے دین، جان، مال اور عزت و آبرو کی بربادی کا خطرہ ہو۔ جہاں اسلام شعائر، فرائض اور واجبات کی ادائیگی سے ممانعت ہو یا جہاں کی تہذیب، کلچر اور سوسائٹی کے برے اثرت سے مسلمانوں کے عقائد اور معمولات محفوظ نہ رہیں، اور زمین کے جس حصہ میں مسلمانوں کے عقائد کو خطرہ نہ ہو اور وہ آزدی کے ساتھ وہاں اپنی عبادات کو انجام دے سکیں وہاں مسلمانوں کے ہنے میں کوئی حرج نہیں (عمدۃ القاری ج 1، ص 35، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، 1348 ھ)

فتح مکہ کے بعد ہجرت کے منسوخ ہونے کی وجوہات 

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : علامہ خطابی وغیرہ نے کہا ہے کہ ابتداء اسلام میں مدینہ کی طرف ہجرت کرنا فرض تھا کیونکہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور انہیں جمعیت کی ضرورت تھی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے مکہ کو فتح کردیا اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو مدینہ کی طرف ہجرت منسوخ ہوگئی اور تبلیغ اسلام اور دشمن سے مدافعت کے لیے جہاد کی فرضیت باقی رہی۔ 

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابتداء میں مدینہ منورہ ہجرت کرنا اس لیے بھی فرض تھا کہ جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اس کو کفار ایذاء دیتے تھے اور اس وقت تک اس پر ظلم کرتے رہتے تھے جب تک کہ وہ (العیاذ باللہ) دین اسلام کو چھوڑ نہیں دیتا۔ اور انہی لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی : ” ان الذین توفاہم الملئکۃ ظالمی انفسہم قالوا فیم کنتم۔ قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا فاولئک مارواھم جہنم وساءت مصیرا۔ الا المستضعفین من الرجا والنساء الولدان لا یستطیعون حیلۃ ولا یھتدون سبیلا فاولئک عسی اللہ ان یعفو عنہم وکان اللہ عفوا غفورا (النساء :97 ۔ 99) بیشک جن لوگوں کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے تو فرشتے ان سے کہتے ہیں تم کیا کرتے رہے ؟ وہ کہتے ہیں ہم زمین میں بےبس تھے ! فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ؟ ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے، البتہ مردوں، عورتوں اور بچوں میں سے جو (واقعی) بےبس (اور مجبور) ہیں، جو کسی تدبیر کی استطاعت رکھتے ہیں اور نہ کہیں جانے کا راستہ جانتے ہیں، تو قریب ہے کہ اللہ ان لوگوں سے درگزر فرمائے اور اللہ بہت معاف فرمانے والا اور بےحد بخشنے والا ہے “

جو شخص دار الکفر میں اسلام لائے اور اس سے نکلنے پر قادر ہو اس کے حق میں ہجرت اب بھی باقی ہے کیونکہ سنن نسائی میں حضرت معاویہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ مشرک کے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے کسی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ مشرکین سے علیحدہ نہ ہوجائے اور سنن ابو داود میں حضرت سمرہ (رض) سے روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے یہ حدیث ان لوگوں پر محمول ہے جن کو یہ خدشہ ہو کہ اگر وہ دار الکفر میں رہے تو ان کا دین خطرہ میں پڑجائے گا۔ (فتح الباری، ج 6، ص 190، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)

دار الکفر میں مسلمانوں کی سکونت کا حکم 

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں لا ھجرۃ بعد الفتح فتح کے بعد ہجرت نہیں کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ مطلقاً فتح کے بعد ہجرت نہیں ہے خواہ مکہ مکرمہ ہو یا کوئی اور شہر، لہذا اب اگر مسلمان کسی شہر کو فتح کرلیں تو ان پر ہجرت واجب نہیں ہے، لیکن اگر کسی شہر کو مسلمانوں نے فتح نہیں کیا تو وہاں کے رہنے والوں کے متعلق تین قول ہیں :

1 ۔ پہلا قول : جو شخص دار الکفر میں دین کا اظہار نہ کرسکتا ہو اور فرائض اور واجبات کو ادا نہ کرسکتا ہو اور وہ دار الکفر سے نکلنے کی استطاعت رکھتا ہو اس پر ہجرت کرنا واجب ہے۔

2 ۔ دوسرا قول : مسلمان دار الکفر میں فرائض اور واجبات کو آزادی سے ادا کرسکتے ہوں اور ہجرت کرنے کی بھی استطاعت رکھتے ہوں پھر بھی ان کے لیے دار الکفر سے ہجرت کرنا مستحب ہے تاکہ دار الاسلام میں مسلمانوں کی کثرت اور جمعیت ہو اور وہ بوقت ضرور مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شامل ہوسکیں اور دار الکفر میں کفار کی بدعدی اور فتنوں سے محفوظ رہیں اور کافروں کی تہذیب اور ثقافت اور ان کے معاشرے کی بےراہ روی، بدچلنی اور فحاشی کے برے اثرات سے مامون رہیں، اور کفار اپنے دین کی اشاعت اور مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی جو کوشش کرتے ہیں ان کے خطرات سے مسلمان محفوظ رہیں۔ 

3 ۔ تیسرا قول : جو مسلمان قید مرض یا کسی اور عذر کی بنا پر دار الکفر سے ہجرت نہ کرسکتا ہو اس کے لیے دار الکفر میں رہنا جائز ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ تکلیف اور مشقت اٹھا کر ہجرت کرے تو ماجور ہوگا۔ (فتح الباری ج 6، ص 38، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)

ہجرت کی اقسام 

علامہ بدر الدین عینی حنفی نے ہجرت کی حسب ذیل اقسام ذکر کی ہیں :

1 ۔ دار الخوف سے دار الامن کی طرف ہجرت، جیسا کہ مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، یا اب ہندوستان کے مسلمان ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر انگلینڈ، امریکہ یا مغربی جرمنی کی طرف ہجرت کرجائیں 

2 ۔ دارالکفر سے در الاسلام کی طرف ہجرت کرنا، جیسا کہ فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، یا اب بھارت سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنا۔ اسی طرح جو شخص دار الکفر میں اظہار دین پر قادر نہ ہو اس کا در الاسلام کی طرف ہجرت کرنا۔

3 ۔ قرب قیامت میں فتنوں کے ظہور کے وقت مسلمانوں کا شام کی طرف ہجرت کرنا۔ چناچہ سنن ابو داود میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب ایک ہجرت کے بعد دوسری ہجرت ہوگی، سو روئے زمین کے اچھے لوگ حضرت ابراہیم کی ہجرت کی جگہ (شام میں چلے جائیں گے اور باقی زمین پر بدترین لوگ رہ جائیں گے۔ 

4 ۔ برائیوں اور گناہوں سے ہجرت کرنا۔ (عمدۃ القار ج 1، ص 35، مطبوعہ ادارۃ المنیریہ مصر، 1348 ھ)

ایک اور قسم کا بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے : 

5 ۔ ماسوا اللہ کو ترک کرکے اللہ کی طرف ہجرت کرنا (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے۔ بخاری)

ہجرت الی اللہ کی توضیح 

اللہ کی طرف ہجرت کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو رضائے الٰہی میں اس طرح ڈھال لے کہ اس کے دل میں ہر کام کا محرک اور داعی اللہ کا حکم ہو، اور طبعی تقاضے شرعی تقاضوں کے مظہر ہوجائیں حتی کہ وہ اس منزل پر آجائے کہ اس کا کھانا پینا بھی اس نیت سے ہو کہ چونکہ اللہ نے کھانے پینے کا حکم دیا ہے اس لیے وہ کھاتا پیتا ہے ورنہ اس کو لاکھ بھوک اور پیاس لگتی وہ کھانے پینے کی طرف التفات نہ کرتا۔ اس مقام کا خلاصہ یہ ہے کہ بندے کے ہر کام کی نیت اور جذبہ یہ ہو کہ چونکہ یہ اللہ کا حکم ہے اس لیے وہ اس کام کو کر رہا ہے اور اگر اللہ کا حکم نہ ہوتا تو خواہ کچھ ہوتا وہ اس کام کو نہ کرتا۔ اسی مرتبہ کو اللہ کے صبغۃ اللہ سے تعبیر فرمایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی مقام کی طرف اس حدیث میں ہدایت دی ہے۔

اللہ کی صفات سے متصف ہوجاؤ اقبال نے اسی منزل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا 

در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے 

یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ !

یعنی انسان کے لیے ملکوتی صفات اپنانا حتی کہ مظہر جبرئیل ہونا بھی کمال نہیں ہے۔ اس کا مقام تو یہ ہے وہ الوہی صفات اپنا کر اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے اور مظہر رب جبئیل ہوجائے۔ چناچہ بندہ اگر کسی پر رحم کرے تو اس لیے کہ اس کا رب رحیم ہے اور اگر کسی پر غضب ناک ہو تو اس لیے کہ اس کا رب قہار ہے، اور انہیں پر رحم کرے جن پر اس کا رب رحم کرنا چاہتا ہے اور انہیں پر غضب ناک ہو تو اس لیے کہ اس کا رب قہار ہے، اور انہیں پر رحم کرے جن پر اس کا رب رحم کرنا چاہتا ہے اور انہیں پر غضب ناک ہو جن پر اس کا رب اس سے غضبن ناک ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح ہجرت الی الرسول کا مطلب بھی یہ ہے کہ اپنی سیرت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے تابع کرے اور چونکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی اور حکم الگ الگ اور مغائر نہیں ہیں اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راضی کرنا اللہ کو راضی کرنا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرنا ہی اللہ کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ 

ذوالارحام کی تعریف، ان کے مصادیق اور ان کی وراثت کے ثبوت میں احادیث 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اللہ کی کتاب میں قرابت دار (بہ طور وراثت) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔

علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی 816 ھ لکھتے ہیں : 

ذوالرحم کا معنی لغت میں مطلقاً ذوالقرابت ہے اور اصطلاح شرع میں ذوالرحم ہر وہ رشتہ دار ہے جس کا حصہ کتاب اللہ میں مقرر ہو نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں اور نہ اجماع امت میں اور نہ وہ عصبہ ہو (یعنی میت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار، جیسے دادا، چچا، بیٹا، بھائی وغیرہ) اور جب صرف یہی ہو اور اس کے ساتھ ذوی الفروض، عصبہ نسبی اور عصبہ سببی نے ہو تو میت کا کل مال اس کو مل جاتا ہے۔ (شرح السراجیہ ص 145، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرم، 1417 ھ)

ذو الارحام کی مثالیں یہ ہیں : جیسے بیٹی کی اولاد (نواسے، نواسی) پوتی کی اولاد، نانا، نانا کی ماں، بہن کی اولاد (بھانجے، بھانجیاں) بھائی کی بیٹیاں (بھتیجیاں) پھوپھیاں خواہ باپ کی سگی بہن ہو یا علاتی یا اخیافی، ماموں، خالہ، اخیافی چچا کی اولاد، ماموں کی اولاد، سگے چچا یا علاتی چچا کی اولاد۔

مقدام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اہل و عیال کو چھوڑ کر مرا اس کی پرورش میرے ذمہ ہے اور جس نے مال چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا میں (احق) وارث ہوں، میں اس کی دیت ادا کروں گا اور جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا ماموں اس کا وارث، وہ اس کی دیت ادا کرے گا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 2899 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2738)

ابو امامہ سہل بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کو ایک تیر آکر لگا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا اور اس کے ماموں کے سوا اور کوئی وارث نہیں تھا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے اس کے متعلق حضرت عمر کو خط لکھا، حضرت عمر نے ان کے جواب میں لکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جس کا کوئی مولا نہ ہو اس کا اللہ اور اس کا رسول مولا ہے اور جس کا اور کوئی واث نہ ہو اس کا ماموں اس کا وارث ہے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : 4068، 4067 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2110 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2737 ۔ سنن کبری للبیہقی، ج 6، ص 214، المنتقی رقم الحدیث : 264، مسند احمد، ج 1، ص 28)

اختتامی کلمات اور دعا 

آج 22 ذوالقعدہ 419 ھ/11 مارچ 1999 ء کو بروز جمعرات بعد از نماز عشاء سورة الانفال کی تفسیر مکمل ہوگئی۔ فالحمد للہ رب العالمین۔ الٰہ العالمین جس طرح آپ نے اس سورت کی تفسیر کو مکمل کرنے کی توفیق دی ہے، قرآن مجید کی باقی سورتوں کی تفسیر کو بھی مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمانا۔ مجھے اس تفسیر میں خطا اور زلل سے محفوظ رکھنا۔ اس تفسیر کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرمانا اور اس کو منکرین اور مخالفین کے شر سے محفوظ رکھنا اور اس کو تاقیامت فیض آفریں رکھنا اور اس کو عقائد اور اعمال میں موثر بنانا۔ اس تفسیر کو میرے لیے صدقہ جاریہ بنادینا، اور تمام مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں کو اس کی طرف متوجہ اور راغب کرردینا۔ اور محض اپنے فضل سے میرے تمام گناہوں کو معاف کردینا، دنیا اور آخرت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور آپ کی شفاعت سے شاد کام کرنا، مجھے میرے والدین اور میرے اساتذہ اور میرے تلامذہ، اس تفسیر کے ناشر، اس کے کمپوزر، اس کے مصحح، اس کے معاونین اور اس کے قارئین کو دنیا اور آخرت کے ہر شر، ہر بلا اور ہر عذاب سے محفوظ رکھنا اور دنیا اور آخرت کی ہر نعمت اور ہر سعادت عطا فرمانا خصوصاً صحت اور سلامتی کے ساتھ ایمان پر خاتمہ کرنا۔

واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین قائد المرسلین شفیع المذنبین وعلی الہ الطاہرین و اصحابہ الکاملین وعلی ازواجہ امہات المومنین وعلی علماء ملتہ واولیاء امتہ وسائر المومنین اجمعین۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 75