أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ۞

ترجمہ:

اور اگر (دشمن) صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوں اور اللہ پر توکل کریں، بیشک وہ بہت سننے والا، بےحد جاننے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر (دشمن) صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوں اور اللہ پر توکل کریں، بیشک وہ بہت سننے والا، بےحد جاننے والا ہے 

امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف لوٹے اور ان کے قریب پہنچے تو انہوں نے کچھ آوازیں سنیں تو انہوں نے کہا میں لھو ولعب میں مشغول لوگوں کی آوازیں سن رہا ہوں اور جب انہوں نے یہ معائنہ کیا کہ وہ بچھڑے کی عبادت کررہے ہیں تو انہوں نے تورات کی الواح کو ڈال دیا جس کے نتیجہ میں وہ ٹوٹ گئیں اور وہ اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔

(جامع البیان جز ٩ ص ٨٦ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

صحیح بات یہ ہے کہ قوم کی گمراہی پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو پہاڑ پر ہی مطلع فرمادیا تھا۔ قرآن مجید کی صریح آیات اور حدیث صحیح سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وما اعجلک عن قومک یاموسی۔ قال ھم اولاء علی ائری وعجلت الیک رب لترضی۔ قال فانا قد فتنا قومک من بعدک واضلھم السامری۔ فرجع موسیٰ الی قومہ غضبان اسفا۔ (طہ : ٨٦۔ ٨٣)

(اور ہم نے طور پر موسیٰ ( علیہ السلام) سے فرمایا) آپ نے اپنی قوم کو چھوڑ کر آنے میں کیوں جلدی کی اے موسیٰ ( علیہ السلام) ۔ عرض کیا وہ لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں اے میرے رب ! میں نے آنے میں اس لیے جلدی کی کہ تو راضی ہوجائے۔ فرمایا تو ہم نے آپ کے بعد آپ کی قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا ہے۔ تو موسیٰ ( علیہ السلام) بہت غم وغصہ کے ساتھ اپنی قوم کی طرف لوٹے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آنکھ سے دیکھنا سننے کی مثل نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے فرمایا تمہاری قوم فتنہ میں مبتلا کردی گئی ہے تو انہوں نے تختیاں نہیں ڈالیں اور جب انہوں نے آنکھ سے دیکھ لیا تو تختیاں زمین پر ڈال دیں اور وہ نتیجتاً ٹوٹ گئیں۔

(المعجم الکبیر ١٢ رقم الحدیث : ١٤٤٥١ المعجم الاوسط ج ا رقم الحدیث : ٢٥ مسند احمد ج ا رقم الحدیث : ٢٤٤٧ مسند البزارج رقم الحدیث : ٢٠٠ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٧٨، ٢٠٧٧ المستد رک ج ص ٢٢١ تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٥ ص ١٥٧٠ الدرالمشور ج ٣ ص ٥٦٤ حافظ الہیشی نے کہنا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ج ا ص ١٥٣ ) ۔

غضب کا معنی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے غضب کا تعین :

اس آیت میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ غضب اور افسوس کے ساتھ لوٹے۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

غضب کا معنی ہے انتقام کے ارادہ سے دل کے خون کا کھولنا اور جوش میں آنا۔

(المفردات ج ٢ ص ٢٦٨ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ١٤١٨ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 61