أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنۡ يُّرِيۡدُوۡا خِيَانَـتَكَ فَقَدۡ خَانُوا اللّٰهَ مِنۡ قَبۡلُ فَاَمۡكَنَ مِنۡهُمۡ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور اگر یہ آپ سے خیانت کا ارادہ کریں تو وہ اس سے پہلے اللہ سے خیانت کرچکے ہیں تو اللہ نے ان میں سے بعض لوگوں پر آپ کو قادر (غالب) کردیا اور اللہ بہت جاننے والا بےحد حکمت والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر یہ آ سے خیانت کا ارادہ کریں تو وہ اس سے پہلے اللہ سے خیانت کرچکے ہیں تو اللہ نے ان میں سے بعض لوگوں پر آپ کو قادر (غالب) کردیا اور اللہ بہت جاننے والا بےحد حکمت والا ہے 

اللہ تعالیٰ سے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار کی خیانت کا بیان۔ 

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عباس اور ان کے اصحاب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ آپ جو کچھ اللہ کے پاس سے لے کر آئے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور ہم آپ کے متعلق اپنی قوم کو نصیحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہوں نے اس عہد کو پورا نہیں کیا، آپ سے خیانت کی اور اس قول کے مطابق عمل نہیں کیا تو آپ افسوس نہ کریں یہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بھی خیانت کرچکے ہیں۔ انہوں نے کفر کیا، آپ سے قتال کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان پر غلبہ عطا فرمایا۔ (جامع البیان جز 10، ص 66، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خیانت کرنے کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ جس کو ہم نے حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے ذکر کیا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اگر انہوں نے آپ کی نبوت کا انکار کیا تو یہ آپ سے خیانت کی اور اس سے پہلے یہ اللہ کی وحدانیت کا انکار کرکے اللہ کے ساتھ کفر کرچکے ہیں۔ تیسری خیانت یہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فدیہ لے کر ان کو آزا کیا تو ان سے یہہ عہد لیا تھا کہ دوبارہ آپ کے خلاف جنگ نہیں کریں گے اور مشرکین سے معاہدہ نہیں کریں گے۔ اگر انہوں نے اس عہد کی خلاف ورزی کی اور آپ سے خیانت کی تو آپ افسوس نہ کریں یہ پہلے اللہ سے بھی عہد کرکے توڑ چکے ہیں اور اللہ سے عہد کرکے اس کو توڑنے کی مثال ان آیتوں میں ہے : ” قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر تدعونہ تضرعا وخفیۃ لئن انجانا من ھذہ لنکونن من الشکرین۔ قل اللہ ینجیکم منہا ومن کل کرب ثم انتم تشرکون : آپ کہیے کہ تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے، جس کو تم گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دی تو ہم ضرور شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ آ کہیے کہ اس (مصیبت) سے اور ہر سختی سے تمہیں اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو “

” واذا مس الانسان ضر دعا ربہ منیبا الیہ ثم اذا خولہ نعمۃ منہ نسی ما کان یدعوا الیہ من قبل وجعل للہ اندادا لیضل عن سبیلہ۔ قل تمتع بکفرک قلیلا انک من اصحاب النار (الزمر :8) ” اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہوا اسی کو پکارتا ہے پھر جب اللہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس (مصیبت) کو بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کو پکارتا تھا، اور اللہ کے شریک بنا لیتا ہے تاکہ (دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ سے بہکائے، آپ کہئے کہ تم اپنے کفر سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، بیشک تم دوزخ والوں میں سے ہو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 71