يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلَى الۡقِتَالِ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ عِشۡرُوۡنَ صَابِرُوۡنَ يَغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَ لۡفًا مِّنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 65
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلَى الۡقِتَالِ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ عِشۡرُوۡنَ صَابِرُوۡنَ يَغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَ لۡفًا مِّنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اے نبی (مکرم ! ) مومنین کو قتال پر برانگیختہ کیجئے، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تم میں سے ایک سو (صبر کرنے والے) ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے، کیوں کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے نبی (مکرم ! ) مومنین کو قتال پر برانگیختہ کیجئے، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تم میں سے ایک سو (صبر کرنے والے) ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے، کیوں کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس مسئلہ پر بہت طویل کلام کیا ہے جس کو جسٹس محمد تقی عثمانی بتمامہ نقل کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شیخ بدر عالم میرٹھی کے کلام کا خلاصہ لکھا ہے اور آخر میں بہ طور حاصل بحث یہ لکھا ہے کہ اگر انسان قصداً اسبال (ٹخنوں سے نیچے تہبند باندھے) کرے تو وہ مطلقاً ممنوع ہے خواہ وہ تکبر سے ہو یا بغیر تکبر کے اور اگر اس کا تہبند بلاقصد ٹخنوں سے نیچا رہا تو وہ صورت ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کے لیے جائز فرمایا تھا۔(تکملہ فتح الملھم ج ٤ ص ١٢٣ ملتحصا مطبوعہ مکتبہ دارالعلوم کراچی)
جو کام بلاقصد ہو وہ خارج از بحث ہے کیونکہ ارادتاً کسی کام پر مکروہ یا غیر مکروہ ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔ اور اسبال ثوب اگر انسان کی قامت سے متجاوزنہ ہو اور بغیر تکبر کے ہو تو وہ مذاہب اربعہ کے فقہاء کے نزدیک جائز ہے اور جرثوب مطلقاً ممنوع ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ اس لیے جسٹس صاحب کا اسبال ثوب کو مطلقاً ممنوع کہنا غیر مسموع ہے۔ البتہ مشہور دیوبندی محدث شیخ محمد ادریس کا ندھلوی متوفی ١٣٩٤ ھ نے فقہاء مذاہب اربعہ کے مطابق لکھا ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تکبر کے کپڑا لٹکانا حرام نہیں ہے۔ مکروہ تنزیمی ہے۔
(التعلیق السبیح ج ٤ ص ٣٩٥ ٣٨٣ مطبوعہ لاہور)
ٹخنوں سے نیچے لباس لٹکانے کے متعلق مصنف کی تحقیق :
ہماری تحقیق یہ ہے کہ احادیث میں جرثوب اور اسبال الازار کے الفاظ ہیں جرثوب کا معنی ہے کپڑا گھسیٹنا۔ اور اسباب الازار کا معنی ہے تہبند کا ٹخنوں سے نیچے ہونا۔ اگر کوئی مرد جرثوب کرے یعنی اس کا تہبند یا شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے بہت نیچا ہو حتیٰ کہ اس کے قدموں کے نیچے سے گھسٹ رہا ہو تو یہ بغیر تکبر کے بھی مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس میں بغیر کسی ضرورت اور بغیر کسی فائدہ کے کپڑے کو ضائع کرنا ہے سو یہ اسراف کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب کپڑا قدموں کے نیچے زمین پر گھسٹتا رہے گا تو نجاست کے ساتھ آلودہ ہوگا اور کپڑے کو محل نجاست میں ڈالنا بھی مکروہ تحریمی ہے۔
اور تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے کیوں کہ عہد رسالت میں عورتیں کپڑا گھسیٹ کر چلتی تھیں اور مردوں کے لیے عورتوں کی مشابتہ اختیار کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے۔ اس لیے اگر جرثوب بغیر تکبر کے ہو پھر بھی مکروہ تحریمی ہے۔ حافظ ابن عبدالبر مالکی نے اس کو مذموم فرمایا ہے۔ (تمہید ج ٣ ص ٢٤٤) اور حافظ ابن حجر عسقانی نے اس کو مکروہ تحریمی فرمایا ہے۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٢٦٣) اور اگر جرثوب (کپڑا گھسیٹنے) کے ساتھ تکبر بھی ہو تو یہ شدید مکروہ تحریمی ہے بلکہ حرام ہے اور اگر اسبال ازار ہو یعنی تہبند یا شلوار کا پائنچہ ٹخنوں کے نیچے ہو لیکن اس کے قد اور قامت کے برابر ہو گھسٹ نہ رہا ہو تو اگر اس میں تکبر نہیں ہے صرف زینت کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں یہ صرف خلاف اولیٰ ہے اور اگر وہ اس کے ساتھ تکبر کرتا ہے اور اکڑ اکڑ کر چلتا ہے اور اتراتا ہے تو پھر یہ تکبر کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے یہ ملحوظ رہے کہ حڑمت کی علت صرف تکبر ہے اگر ایک مرد نصف پنڈلیوں تک تہبند باندھتا ہے اور اس کے ساتھ تکبر کرتا ہے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے زیادہ متقی اور پرہیز گار سمجھتا ہے اور ان کو حقیر سمجھتا ہے تو یہ بھی مکروہ تحریمی ہے بلکہ حرام ہے اس لیے حرمت میں اصل تکبر ہے۔
ہماری اس تحقیق کی تائید حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ کی اس عبارت میں ہے :
اگر کسی شخص کا لباس بغیر تکبر کے ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا ہو تو اس کا حال مختلف ہے اگر وہ کپڑا اس ٹخنوں کے نیچے لٹک رہا ہو لیکن وہ کپڑا پہننے والے کے قد اور اس کی قامت کے برابر ہو تو اس میں تحریم ظاہر نہیں ہوگی خصوصاً جبکہ بلاقصد ایسا ہو (یعنی غیر ارادی طور پر تہبند یا شلوار پیٹ سے پھسل کر ٹخنوں سے نیچے لٹک گئی ہو) جیسا کہ حضرت ابوبکر (رض) کے لیے اس طرح واقع ہوا اور اگر کپڑا پہننے والے کے قد اور قامت سے زائد ہو تو اس سے منع کیا جائے گا کیونکہ اس میں اسراف ہے اور اس کو حرام کہا جائے گا اور یہ اس وجہ سے بھی ممنوع ہوگا کہ اس میں عورتوں کی مشابہت ہے اور یہ پہلی وجہ سے زیادہ قوی وجہ ہے۔ کیونکہ امام حاکم نے تصحیح سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کے لباس کی نوع کا لباس پہنتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ممنوع ہوگا کہ اس طرح کا لباس پہننے والا اس خدشہ سے محفوظ نہیں ہوگا کہ اس کے لباس پر نجاست لگ جائے (کیونکہ اس کا لباس قدموں کے نیچے گھسٹ رہا ہے) اور اس ممانعت کی طرف اشارہ اس حدیث میں ہے جس کو امام ترمذی نے شمائل (رقم الحدیث : ١٢١) میں اور امام نسائی نے سنن کبریٰ (رقم الحدیث : ٩٦٨٣۔ ٩٦٨٢) میں حضرت عبیدبن خالد (رض) سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک تہبند باندھے ہوئے جارہا تھا اور تہبند زمین پر گھسٹ رہا تھا ناگاہ ایک شخص نے کہا : اپنا کپڑا اوپر اٹھائو اس میں زیادہ صفائی اور زیادہ بقا ہے میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ میں نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ تو ایک سیاہ اور سفید دھاریوں والا تہبند ہے (یعنی اس معمولی کپڑے میں تکبر کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمہارے لیے میری شخصیت میں نمونہ نہیں ہے ؟ میں نے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدھی پنڈلیوں تک تہبند باندھا ہوا تھا۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٣٦٤) اور اس وجہ سے بھی ممنوع ہے کہ کپڑا گھسٹنے میں تکبر کی بدگمانی ہوتی ہے۔ (الی قولہ) قامت سے نیچے کپڑا لٹکانا کپڑا گھسیٹنے کو مستلزم ہے خواہ پہننے والے نے تکبر کا قصد نہ کیا ہو اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے احمد بن منبع نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم تہبند کو گھسیٹنے سے بچو کیونکہ تہبند کو گھسیٹنا تکبر سے ہے۔ (الخ) ۔
(فتح الباری ج ١٠ ص ٢٦٤۔ ٢٦٣۔ مطبوعہ دار نشرالکتب الاسلامیہ لاہور ١٤٠١ ھ) ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 65