فَاِنۡ تَابُوۡا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِؕ وَنُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 11
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِنۡ تَابُوۡا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِؕ وَنُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
پس اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم صاحبانِ علم کے لیے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم صاحبان علم کے لیے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں (التوبہ : ١١)
اہل قبلہ کی تکفیر اور عدم تکفیر میں مذاہب :
امام ابو جعفر محمد بن جریری طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس آیت نے اہل قبلہ کا خون حرام کردیا۔ (جامع البیان جز ا ١٠ ص ١١٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔ اس آیت سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص شرک اور کفر سے تائب ہو، نماز پڑھے اور زکوٰۃ ادا کرے وہ مسلمانوں کا دینی بھائی ہے، اس کی تکفیر جائز نہیں ہے۔ علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں : اہلسنت و جماعت کے قواعد میں سے یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر قرار دینا جائز نہیں ہے، اس کے بعد لکھتے ہیں : ان کا یہ کہنا کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں، پھر یہ کہنا کہ جو شخص قرآن کو مخلوق کہے، یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کو محال کہے یا حضرت ابوبکر (رض) یا عمر (رض) کو گالی دے یا ان کو لعنت کرے وہ کافر ہے، ان دونوں قولوں کو جمع کرنا مشکل ہے۔ (شرح عقائد نسفی ص ١٢٢۔ ١٢١، مطبوعہ کراچی) ۔ علامہ عبدالعزیز پر ہاروی نے اس کے حسب ذیل جواب دیئے ہیں : (١) اہل قبلہ کو کافر نہ کہنا شیخ اشعری اور ان کے متبعین کا مذہب ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے بھی المتقیٰ میں اسی طرح منقول ہے، اور فقہاء نے ان لوگوں کو کافر کہا ہے، اس لیے تعارض نہیں ہے۔ (٢) قرآن مجید کا کلام اللہ ہونا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہونا، کتاب، سنت اور اجماع سلف کے دلائل قطعیہ سے ثابت اور حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کا ایمان اور ان کا شرف عظیم بھی دلائل قطعیہ سے ثابت ہے، سو جو شخص ان امور کا منکر ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کا مصدق نہیں ہے اور اس کا اہل قبلہ سے ہونا معتبر نہیں ہے۔ (٣) فقہاء نے جو تکفیر کی ہے وہ تغلیظ اور تہدید پر محمول ہے، اس کا ظاہر مراد نہیں ہے۔ (نبراس ص ٥٧٢، مطبوعہ شاہ عبدالحق اکیدمی بندیال، ١٣٩٧ ھ) ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : اہل قبلہ سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ضروریات دین پر متفق ہوں مثلاً عالم کا حادث ہونا، قیامت کے بعد لوگوں کا دوبارہ زندہ ہونا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو تمام کلیات اور جزئیات کا علم ہے، اور اس طرح کے دیگر اعتقادی امور، پس جو شخص ساری عمر لمبی لمبی عبادات اور ریاضات میں مشغول رہا حالانکہ اس کا اعتقاد یہ تھا کہ یہ عالم قدیم ہے یا اس کا اعتقاد تھا کہ حشر نہیں ہوگا یا اس کا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ سبحانہٗ کو جزئیات کا علم نہیں ہے وہ اہل قبلہ سے نہیں ہے۔ (اسی طرح جو شخص غلام احمد قادیانی کو نبی یا مجدد مانتا ہے یا جو شخص قرآن مجید کی تحریف کا قائل ہے یا حضرت عائشہ (رض) پر بدکاری کی تہمت لگاتا ہے، یا یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد چھ کے سوا تمام صحابہ مرتد ہوگئے تھے یا جو شخص ائمہ اربعہ کے مقلدین کو حقیقتاً مشرک کہتا ہے یا جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں صریح کلمات کفریہ کہتا ہے ایسے تمام لوگ قرآن مجید کے مصدق نہیں ہیں خواہ وہ ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہوں لیکن وہ اہل قبلہ سے نہیں ہیں) اور اہل سنت نے جو یہ کہا ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک اس میں کفر کی علامات اور کفر کی وجوہات نہیں پائی جائیں گی اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، ہم نے جو اصول بیان کیے ہیں اہل قبلہ ان پر متفق ہیں، ان کا دیگر اصول میں اختلاف ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفات، اعمال کا مخلوق ہونا، اس کے ارادہ کا عموم، اللہ کے کلام کا قدیم ہونا اور آخرت میں اس کے دیدار کا ممکن ہونا، اس قسم کے اور دیگر امور جن کے متعلق اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حق صرف ایک ہے، اور اس میں بھی ان کا اختلاف ہے کہ جو ان امور میں حق کا منکر ہو اس کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں۔ امام اشعری اور ان کے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ ان امور میں جو حق کا منکر ہو وہ کافر نہیں ہے۔ امام شافعی کے ایک قول سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ اہل الاھواء (نئے مذاہب اختیار کرنے والوں) میں سے میں صرف خطابیہ کی شہادت کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ وہ جھوٹ بولنے کو حلال کہتے ہیں اور المنتقیٰ میں امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ منقول ہے کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتے اور اکثر فقہاء کا اسی پر اعتماد ہے اور ہمارے بعض اصحاب ان امور میں مخالفین کو کافر کہتے ہیں اور قدماء معتزلہ انہیں کافر کہتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی صفات قدیمہ کے قائل تھے اور اعمال کو مخلوق کہتے تھے اور استاذ ابو اسحٰق نے کہا ہم اس کو کافر کہیں گے جو ہمیں کافر کہے اور جو ہمیں کافر نہ کہے ہم اس کو کافر نہیں کہیں گے، اور امام رازی کا مختار یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے، اور اصل اشکال کا جواب یہ ہے کہ تکفیر نہ کرنا متکلمین کا مذہب ہے اور تکفیر کرنا فقہاء کا مذہب ہے، پس کوئی تعارض نہیں ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ تکفیر کرنا مخالفین کے رد میں تغلیظ کے لیے ہے اور تکفیر نہ کرنا اہل قبلہ کے احترام کے لیے ہے، کیونکہ وہ بعض امور میں ہمارے موافق ہیں۔ (شرح فقہ اکبر ص ١٥٥۔ ١٥٤، مطبوعہ مصر) ۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : ابن زید نے کہا نماز اور زکوٰۃ دونوں فرض کی گئی ہیں اور ان کی فرضیت میں فرق نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے بغیر زکوٰۃ کے نماز کے قبول کرنے سے انکار فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر (رض) پر رحم فرمائے وہ کس قدر زیادہ فقیہ تھے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : تم کو نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کی نماز مقبول نہیں ہے۔ (جامع البیان جز ١٠ ص ١١٣۔ ١١٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔
صحابہ کرام کو دینی بھائی کے بجائے میرے اصحاب کیوں فرمایا ؟ اس آیت میں توبہ کرنے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے متعلق فرمایا وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، بظاہر ایک حدیث اس آیت کے خلاف ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبرستان تشریف لے گئے اور فرمایا : السلام علیکم اے مومنو ! ہم بھی انشاء اللہ تعالیٰ تمہارے پاس آنے والے ہیں، میری خواہش ہے کہ ہم اپنے دینی بھائیوں کو دیکھیں۔ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دینی بھائی نہیں ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میرے صحابہ (رض) ہو اور ہمارے (دینی) بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے……الحدیث۔ (صحیح مسلم، الطہارۃ : ٣٩ (٢٤٩) ٥٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٠٦، مسند احمد ج ٢ ص ٤٠٨، سنن کبریٰ ج ٤ ص ٧٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد کے مسلمانوں کو اپنا دینی بھائی فرمایا اور صحابہ کر دینی بھائی نہیں فرمایا حالانکہ جن مشترک اوصاف کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد کے مسلمانوں کو اپنا دینی بھائی فرمایا وہ اوصاف صحابہ کرام (رض) میں بھی تھے بلکہ زیادہ احسن اور زیادہ اکمل تھے، اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو دینی بھائی تو بعد کے لوگ ہیں، کیونکہ دینی بھائی ہونے میں صحابہ کرام (رض) کی کوئی انفرادیت اور خصوصیت نہیں تھی، وہ تو قیامت تک کے سارے مسلمان ہیں ان کی خصوصیت صحابی (رض) ہونے میں تھی، کیونکہ بعد کے مسلمان کتنے ہی کامل کیوں نہ ہوں درجہ صحابیت کو نہیں پاسکتے۔
کسی شخص کے تعارف میں اس کی خصوصی صفات ذکر کی جائیں : اس حدیث سے یہ قاعدہ مستنبط ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کے اوصاف کا ذکر کیا جائے تو ان اوصاف کا ذکر کرنا چاہیے جو اس کے خصوصی اوصاف ہوں نہ کہ وہ اوصاف جو کہ عام ہوں، مثلاً کسی مفتی اور عالم کا ذکر کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ لکھنے پڑھنے والے ہیں تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ لکھنے پڑھنے والے تو بہت لوگ ہیں، اس کی خصوسیت مفتی اور عالم ہونے میں ہے، اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف بشر کہا جائے تو یہ درست نہیں ہے، بشر کی تو مسلمانوں کے ساتھ بھی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ کافر بھی بشر ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ سید البشر ہیں، بشر کامل ہیں، افتحار بشر ہیں، بشر تو اپنی جگہ ہے صرف نبی ہونا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت نہیں ہے، آپ سیدالانبیاء ہیں، قائد المرسلین ہیں، خاتم النبیین ہیں، سو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصوصی اوصاف کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جائے کیونکہ عام اوصاف کے ساتھ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں فرمایا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 11