كَيۡفَ يَكُوۡنُ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ عَهۡدٌ عِنۡدَ اللّٰهِ وَعِنۡدَ رَسُوۡلِهٖۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ عَاهَدتُّمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ ۚ فَمَا اسۡتَقَامُوۡا لَـكُمۡ فَاسۡتَقِيۡمُوۡا لَهُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
كَيۡفَ يَكُوۡنُ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ عَهۡدٌ عِنۡدَ اللّٰهِ وَعِنۡدَ رَسُوۡلِهٖۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ عَاهَدتُّمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ ۚ فَمَا اسۡتَقَامُوۡا لَـكُمۡ فَاسۡتَقِيۡمُوۡا لَهُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ان مشرکین کے ساتھ کیونکر کوئی عہد کرسکتا ہے ؟ ماسوا ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تو جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی ان سے کیے ہوئے عہد کے پابند رہ، بیشک اللہ متقین کو پسند فرماتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ان مشرکین کے ساتھ کیونکر کوئی عہد ہوسکتا ہے ؟ ماسوا ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تو جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی ان سے کیے ہوئے عہد کے پابند رہو، بیشک اللہ متقین کو پسند فرماتا ہے (التوبہ : ٧)
ان مشرکوں کا بیان جنہوں نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے اس معاہدہ کی پابندی کی :
جن لوگوں نے مسجد حرام کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد کرکے پھر اس عہد کو توڑا، ان کے متعلق امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : امام ابن اسحاق نے کہا کہ عام معاہدہ یہ کیا گیا تھا کہ نہ مسلمان مشرکوں کو حرم میں جانے سے روکیں گے اور نہ مشرک مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکیں گے اور نہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کریں گے۔ یہ معاہدہ حدیبیہ کے مقام پر ہوا تھا جو مسجد حرام کے پاس ہے۔ یہ معاہدہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں بنو بکر قریش کے حلیف تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے، پھر معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے بنوبکر نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔ اور جن لوگوں نے عہد کی پاس داری کی وہ بنو خزاعہ تھے۔ امام ابو جعفر نے کہا وہ لوگ بنوبکر کے بعض افراد تھے جن کا تعلق کنانہ سے تھا، جب بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا تو کنانہ نے بنوبکر کا ساتھ نہیں دیا اور اپنے عہد پر قائم رہے۔ یہ قول اس سے اولیٰ ہے کہ جب حضرت علی (رض) سورة البراءۃ کا پیغام سنانے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے تو اس وقت تک اہل مکہ میں سے قریش اور بنو خزاعہ سے جنگ ہوچکی تھی اور فتح مکہ کے بعد ان آیات کے نزول سے پہلے وہ سب مسلمان ہوچکے تھے، اس وقت کنانہ ہی شرک پر تھے لیکن انہوں نے چونکہ معاہدہ حدیبیہ کی پاس داری کی تھی اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ عہد نبھائو اور جو شخص اپنے فرائض کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرتا ہے اور خوف خدا سے معاہدہ کی پابندی کرتا ہے، اللہ کی نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے، اور معاہدہ کرکے غداری نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے۔ (جامع البیان جز ١٠ ص ١٠٧، ١٠٦، ملخصاً ، مطبوعہ دارالفکر بیرورت، ١٤١٥ ھ) ۔ امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے لکھا ہے : جنہوں نے عہد کی پاسداری کی تھی وہ بنو کنانہ اور بنو ضمرہ تھے۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ٥٣١، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٠ ھ) ۔ جن لوگوں نے عہد شکنی کی تھی ان کے متعلق امام ابن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ نے تین قول لکھے ہیں : (١) بنو ضمرہ، (٢) قریش، (٣) خزاعہ۔ (زادالمسیر، ج ٣ ص ٤٠٠، مطبوعہ مکتب اسلام بیروت، ١٤٠٧ ھ) ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 7