وَاِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ اسۡتَجَارَكَ فَاَجِرۡهُ حَتّٰى يَسۡمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبۡلِغۡهُ مَاۡمَنَهٗ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 6
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ اسۡتَجَارَكَ فَاَجِرۡهُ حَتّٰى يَسۡمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبۡلِغۡهُ مَاۡمَنَهٗ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ۞
ترجمہ:
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پناہ طلب کرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے پناہ دے دیجئے حتیٰ کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اس کے امن کی جگہ پہنچا دیجئے، یہ (حکم) اس لیے ہے کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ طلب کرے تو آپ اسے پناہ دے دیجئے حتیٰ کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کے امن کی جگہ پہنچادیجئے یہ (حکم) اس لیے ہے کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے (التوبہ : ٦)
آیات سابقہ سے ارتباط :
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ واجب کردیا تھا کہ مشرکین کو جن مہینوں کی مہلت دی گئی ہے اس مہلت کے گزر جانے کے بعد ان کو قتل کردیا جائے، کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ کہ حجت قائم ہوچکی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے ایسے دلائل اور براہین بیان کردیئے جو ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے کافی ہیں اور اب ان سے صرف اسلام کا مطالبہ ہے یا پھر ان کو قتل کردیا جائے گا، اس لیے یہاں پر یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر کسی شخص کو دین اسلام سمجھنے کے لیے کسی مزید دلیل یا حجت کی ضرورت ہو تو وہ آپ کے پاس اپنے اطمینان کے لیے نہیں آسکتا، اس شبہ کو دور کرنے کے لیے فرمایا اگر کوئی شخص اسلام کے متعلق اپنے شرح صدر اور اطمینان قلب کے لیے آنا چاہے تو آپ اس کو اسلامی ریاست میں آنے کی اجازت دے دیں اور بعد میں جس جگہ وہ اپنے لیے امن اور عافیت سمجھتا ہے وہاں اسے پہنچا دیں۔
مشرکین کو دارالاسلام میں آنے کی اجازت دینے کے مسائل اور احکام :
علامہ ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص الحنفی المتوفی ٣٧٠ ھ لکھتے ہیں : مشرک جب مسلمانوں کے ملک میں آنے کی اجازت طلب کرے تاکہ وہ دین اسلام کو سمجھے تو اس کو اجازت دینی چاہیے اور اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی توحید اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل بیان کرنے چاہئیں اور اس آیت میں یہ بھی دلیل ہے کہ جو شخص ہم سے جو دینی مسئلہ معلوم کرے، ہمیں اس کو وہ مسئلہ بتانا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : پھر اس کو اس کے امن کی جگہ پہنچا دیں۔ اس میں یہ دلیل ہے کہ جو مشرک ہماری اجازت سے ہمارے ملک میں آیا ہے ہم پر اس کی جان، اس کے مال اور اس کی عزت کی حفاظت کرنا لازم ہے اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ کسی مشرک کو زیادہ مدت تک دارالاسلام میں نہیں ٹھہرانا چاہیے اور اس کو صرف اتنی مدت تک ٹھہرانا چاہیے جتنی مدت میں اس کا اسلام کے احکام سمجھنا ضروری ہو، اور یہ کہ کسی عذر اور سبب کے بغیر کسی مشرک کو دارالاسلام میں نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ٨٤۔ ٨٣، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، ١٤٠٠ ھ) ۔ علامہ برہان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں : جب کوئی مسلمان آزاد مرد یا آزاد عورت کسی کافر کو یا کافروں کی جماعت یا قلعہ بند لوگوں کو یا کسی شہر کے لوگوں کو امان دے دیں (یعنی دارالاسلام میں داخل ہونے کی اجازت دے دیں) تو ان کی یہ اجازت صحیح ہے اور مسلمانوں میں سے کسی شخص کے لیے ان سے قتا کرنا جائز نہیں ہے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام مسلمانوں کا خون ایک جیسا ہے اور غیر مسلموں کے خلاف وہ ایک دوسرے دست بازو ہیں، ان کا ادنیٰ فرد بھی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا اور جو شخص (لشکر میں) دور ہوگا اس کو بھی غنیمت پہنچائی جائے گی اور عمرو بن سعیب کی روایت میں ہے اور مسلمانوں کا ادنیٰ فرد بھی کسی شخص کو امان دے سکتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٨٥، ٢٦٨٣، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٥٣٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٧٤٨، مسند احمد، ج ٢ ص ١٩٢، ٢١١، سنن کبریٰ للیہقی، ج ٨ ص ٢٩ ) ۔ حضرت ام ہانی (رض) بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئی، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرما رہے تھے اور حضرت فاطمہ (رض) کپڑے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پردہ کر رہی تھیں۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا میں ہوں ام ہانی بنت ابی طالب، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مرحبا ام ہانی، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (چاشت کی) آٹھ رکعات پڑھیں، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فارغ ہوگئے تو میں نے عرض کیا کہ میری ماں کا بیٹا (حضرت علی (رض) یہ کہتا ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کرے گا جس کو وہ امان دے چکی ہیں، وہ ابن ہبیرہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم نے اس کو پناہ دی جس کو اے ام ہانی تم نے پناہ دی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٧، صحیح مسلم صلاۃ المسافرین : ٨٢ (٣٣٦) ١٦٣٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٤٩١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٧٤، السنن لاکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٤٨٦، مسند احمد ج ٦ ص ٣٤١، المستدرک ج ٤ ص ٥٤۔ ٥٣، السنن الکبریٰ للیہقی ج ٩ ص ٥٩، موطا امام مالک رقم الحدیث : ٢ چ ١٥، تہذیب تاریخ دمشق ج ٤ ص ١٠، الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١، کامل ابن عدی ج ٧ ص ٢٥١٨، المتقٰی رقم الحدیث : ١٠٥٥، کنزالعمال رقم الحدیث : ١٠٩٥٠ ) ۔ امام ابن ہشام نے امام ابن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ حضرت زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوالعاص بن الربیع کو امان دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی امان کو نافذ کردیا اور فرمایا : مسلمانوں کا ادنیٰ فرد بھی امان دے سکتا ہے۔ (السیرۃ النبویہ ج ٢ ص ٢٦٩، المعجم الکبیر ج ٢٢ ص ٤٠ ) ۔ ہاں اگر کسی شخص کو امان دینے میں اگر کوئی بڑا خطرہ یا فساد ہو تو اس سے امان واپس لے لی جائے گی، جیسے خود امام نے امان دی پھر امان واپس لینے میں کوئی مصلحت دیکھی تو وہ امان واپس لے سکتا ہے۔ ذمی کا کسی شخص کو امان دینا جائز نہیں ہے، اور نہ اس مسلمان کا امان دینا جائز ہے جو خود دارالحرب میں قید ہو یا وہاں تجارت کے لیے گیا ہو، اور مجنون اور کم عمر بچے کا امان دینا بھی صحیح نہیں ہے البتہ جو بچہ جنگ کرسکتا ہو اس کا امان دینا صحیح ہے۔ (ہدایہ اوّلین ص ٥٦٦۔ ٥٦٤، مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان) ۔ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : جس مشرک نے دین کو سمجھنے کے لیے مسلمانوں کے ملک میں داخل ہونے کی اجازت اور امان طلب کی ہو اس کے جواز میں سب کا اتفاق ہے لیکن جس مشرک نے تجارت یا کسی اور غرض سے مسلمانوں کے ملک میں دخول کی اجازت طلب کی ہو تو اگر مسلمان حکمران یہ سمجھیں کہ اس میں مسلمانوں کی مصلحت اور منفعت ہے تو یہ جائز ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ٨ ص ١٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔ امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : فقہاء نے کہا ہے کہ جب کافر حربی اپنامال لے کر دارالاسلام میں داخل ہو تو اس کا مال بھی مال غنیمت ہوتا ہے، ماسوا اس کے کہ وہ کسی غرض شرعی کی بناء پر امان لے کر داخل ہو مثلاً وہ اسلام قبول کرنے کے لیے اللہ کا کلام سننا چاہتا ہو یا وہ تجارت کے لیے داخل ہو، اور جو کافر حربی دارالاسلام میں کافروں کا سفیر بن کر آئے تو سفارت بھی امان ہے اور جس شخص کا مال دارالاسلام میں امان ہو تو اس کا اپنا مال لینے کے لیے آنا بھی صحیح ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ٥٣١، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔ امام محمد بن حسن الشیبانی المتوفی ١٨٩ ھ لکھتے ہیں : قاعدی یہ ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں امان حاصل کرنے والے کافر رہیں، مسلمانوں کے امیر پر ان کی نصرت کرنا واجب ہے اور اس پر واجب ہے کہ اگر کوئی شخص ان پر ظلم کرے تو اس کو انصاف مہیا کرے جس طرح مسلمانوں پر اہل ذمہ کے حق میں یہ واجب ہے۔ شمس الائمہ محمد بن احمد السرخسی المتوفی ٤٨٣ ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : کیونکہ امان حاصل کرنے والے کافر جب تک دارالاسلام میں رہیں وہ مسلمانوں کی ولایت میں ہیں اور ان کا حکم ذمیوں کی طرح ہے۔ (شرح السیر الکبیر ج ٥ ص ١٨٥٣، مطبوعہ بالحرکتہ الثورۃ اسلامیہ، افغانستان) ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 6