اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَالۡمَسِيۡحَ ابۡنَ مَرۡيَمَ ۚ وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَـعۡبُدُوۡۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ سُبۡحٰنَهٗ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَالۡمَسِيۡحَ ابۡنَ مَرۡيَمَ ۚ وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَـعۡبُدُوۡۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ سُبۡحٰنَهٗ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ ۞
ترجمہ:
: انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور پیروں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو (بھی) حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ یہ صرف ایک خدا کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے وہ ان کے خود ساختہ شرکاء سے پاک ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور پیروں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو (بھی) حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ یہ صرف ایک خدا کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے وہ ان کے خود ساختہ شرکاء سے پاک ہے (التوبہ : ٣١)
اس سے پہلی آیت میں یہودیوں کی یہ بدعقیدگی بیان فرمائی تھی کہ انہوں نے عزیر کو ابن اللہ کہا اور اس آیت میں ان کی یہ بداعمالی بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو خدا بنا رکھا تھا۔
احبار اور رہبان کا معنی :
امام ابو عبید متوفی ٢٢٤ ھ نے لکھا ہے کہ احبار، حبر کی جمع ہے۔ حبر عالم کو کہتے ہیں، کعب کو حبر کہا جاتا تھا۔ (غریب الحدیث ج ١ ص ٦٠ ) ۔
علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ نے لکھا ہے حبر کا معنی ہے : نیک اثر اور اچھی نشانی۔ جب علماء لوگوں کے دلوں میں اپنے علوم سے اچھے تاثرات اور اپنے افعال کے نیک آثار چھوڑتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نیکیوں کی اقتداء کی جاتی ہے تو ان کو احبار کہتے ہیں، اسی وجہ سے حضرت عمر (رض) نے فرمایا : علماء تو قیامت تک باقی رہیں گے اور احبار گم ہوگئے اور ان کے آثار دلوں میں موجود ہیں۔ (المفردات ج ١ ص ١٣٨) ۔
نیز علامہ راغب نے لکھا ہے کہ رہب کا معنی ہے گھبراہٹ کے ساتھ ڈر اور خوف، اور راہب کا معنی ہے اللہ سے ڈرنے والا اور رہبان راہب کی جمع ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٦٩)
امام فخر الدین رازی المتوفی ٦٠٦ ھ نے لکھا ہے کہ حبر اس عالم کو کہتے ہیں جو عمدہ بیان کرتا ہو اور راہب اس شخص کو کہتے ہیں جس کے دل میں خوف خدا جاگزیں ہو اور اس کے چہرے اور لباس سے خوف خدا ظاہر ہوتا ہو، اور عرف میں احبار کا لفظ علماء یہود کے ساتھ خاص ہے اور رہبان کا لفظ ان علماء نصاریٰ کے ساتھ خاص ہے جو گرجوں میں رہتے ہیں۔ (تفسیر کبیر ج ٤ ص ٣١۔ ٣٠)
قرآن اور حدیث کے مقابلہ میں اپنے دینی پیشوائوں کو ترجیح دینے کی مذمت :
حضرت حذیفہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا یہودیوں نے اپنے احبار (علماء) کی اور عیسائیوں نے اپنے رہبان (گرجا میں رہنے والے علماء) کی عبادت کی تھی ؟ اور اس آیت کی کیا توجیہ ہے ؟ انہوں نے کہا : انہوں نے اپنے علماء کی عبادت نہیں کی لیکن جب وہ ان کے لیے حرام کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال کہتے اور جب وہ ان کے لیے حلال کو حرام کردیتے تو وہ اس کو حرام کہتے تھے اور یہی ان کا اپنے اپنے علماء کو خدا بنانا تھا۔ (الجامع لاحکام القرآن : جز ٨ ص ٥٤، مطبوعہ بیروت) ۔
حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عدی ! اس بت کو اتار پھینک دو ، میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے متعلق پوچھا : اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم۔ (التوبہ : ٣١) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ اپنے علماء کی عبادت نہیں تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال کہتے اور جب وہ کسی چیز کو حرامکر دیتے تو وہ اس کو حرام کہتے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٩٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ) ۔
قرآن مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لین ہے، اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صریح حدیث کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے، اسی گمراہی کا قلع قمع کرنے کے لیے امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ جب میرے قول کے خلاف کوئی حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے اور امام شافعی نے فرمایا اگر میری قول کسی حدیث کے خلاف ہو تو میرے قول کو دیوار پر مار دو اور حدیث پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے متقدمین فقہاء پر رحمتیں نازل فرمائے، انہوں نے کتنے ہی مسائل میں ائمہ کے اقوال کے خلاف احادیث پر عمل کیا ہے اور اس گمراہی کی جڑ کاٹ دی ہے، لیکن اس زمانہ میں ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے کسی قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث ان کو معلوم نہیں تھی اور وہ قرآن اور حدیث کو تم سے بہت زیادہ جاننے والے تھے ! امام عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ نے متعدد اسانید کے ساتھ عتیبہ اور مجاہد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاتا ہے اور ترک بھی کیا جاتا ہے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ ج ٢ ص ٩٢٧۔ ٩٢٥، دار ابن الجوزیہ جدہ)
نبی کے سوا کسی بشر کا قول خطا سے معصوم نہیں :
مروان بن الحکم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کے پاس تھا، حضرت عثمان (رض) حج تمتع سے منع کر رہے تھے، حضرت علی نے یہ دیکھ کر حج تمتع کا احرام باندھا اور فرمایا میں کسی شخص کے قول کی بناء پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو ترک نہیں کروں گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٦٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٢٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٧٣٣، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٩٢٣)
حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں حج تمتع کیا اور قرآن نازل ہوا اور ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کیا۔ امام مسلم کی روایت میں ہے ان کی مراد حضرت عمر (رض) تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٢٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٧٣٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٧٨، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٨١٣) ۔
سالم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا، انہوں نے کہا جائز ہے۔ اس نے کہا آپ کے باپ تو حج تمتع سے منع کرتے تھے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : یہ بتائو کہ میرا باپ ایک کام سے منع کرتا ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کام کو کیا ہو تو آیا میرے باپ کے حکم پر عمل کیا جائے گا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل کیا جائے گا ؟ اس شخص نے کہا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل کیا جائے گا۔ حضرت ابن عمر نے کہا : تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج تمتع کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٢٥، دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ) ۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) فوت ہوگئے تو میں نے حضرت عائشہ (رض) سے ذکر کیا کہ حضرت عمر (رض) کہتے تھے کہ میت کے گھروالوں کے رونے سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رض) پر رحم فرمائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میت کے گھر والوں کے رونے سے اللہ اس میت کو عذاب دیتا ہے، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرماتا تھا کہ کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے سے اللہ اس کے عذاب میں زیادتی کرتا ہے اور تمہارے لیے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے : ولا تزر وازرۃ اُخریٰ ۔ (الانعام : ١٦٤) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٨٨۔ ١٢٨٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢٩۔ ٩٢٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٠٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٨٥٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٩٤) ۔
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک قوم کو جلوا دیا، حضرت ابن عباس (رض) تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : اللہ کے عذاب سے سزا نہ دو ، البتہ میں ان کو قتل کردیتا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : جو شخص اپنے دین بدلے اس کو قتل کردو۔ ترمذی کی روایت میں ہے حضرت علی (رض) کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا : ابن عباس نے سچ کہا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٢٢، ٣٠١٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٦٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٠٧١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٢٥، مسند احمد ج ١ رقم الحدیث : ١٨٧١، المستدرک ج ٣ ص ٥٣٨، سن بیہقی ج ٨ ص ١٥٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٥٣٢) ۔
حضرت عمر (رض) نے ایک زانیہ حاملہ کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت معاذ (رض) نے کہا جو بچہ اس کے پیٹ میں ہے اس کو ہلاک کرنے کا آپ کے پاس کیا جواز ہے ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ! (جامع بیان العلم و فضلہ ج ٢ ص ٩٢٠، رقم : ١٧٤٥۔ ١٧٤٢، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ ریاض، ١٤١٩ ھ) ۔ ایک عورت کے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) کے پاس یہ مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو رجم (سنگسار) کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی (رض) سے فرمایا : اس کو رجم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے : عورتیں پورے دو سال تک بچوں کو دودھ پلائیں۔ (البقرہ : ٢٢٣) اور فرمایا : حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی (مجموعی) مدت تیس ماہ ہے۔ (الاحقاف : ١٥) تو حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کے قول کی طرف رجوع کرلیا۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ج ٢ ص ٩٢٠، رقم : ١٧٤٦، مطبوعہ ریاض) ۔
عبداللہ بن مصعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا : عورتوں کا مہر چالیس اوقیہ (دس چھٹانک چاندی) سے زیادہ نہ باندھو، اور جس نے اس سے زیادہ مہر باندھا میں وہ زیادہ مقدار بیت المال میں داخل کر دوں گا، تب ایک چپٹی ناک والی دراز عورت پچھلی صف میں کھڑی ہوئی اور اس نے کہا : آپ کے لیے یہ حکم دینا جائز نہیں ہے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کیوں ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واٰتیتم احدٰھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا۔ (النساء : ٢٠) اور تم ان میں سے کسی بیوی کو ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : عورت نے صحیح کہا اور مرد نے خطا کی۔ (مصنف عبدالرزاق ص ١٨٠، سنن کبریٰ للیہقی، ج ٧ ص ٢٣٣، سنن سعید بن منصور رقم الحدیث : ٥٩٨۔ ٥٩٧ جامع بیان العلم و فضلہ ج ١ ص ٥٣٠، رقم : ٨٦٤، تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٥٢٨، دارالفکر ١٤١٨ ھ، الدر المنثور ج ٢ ص ٤٦٦، دارالفکر ١٤١٤ ھ) ۔
غور کیجئے جب اکابر صحابہ (رض) کے اقوال خطاء سے معصوم نہیں ہیں تو بعد کے ائمہ، فقہاء اور علماء کے اقوال کی خطاء سے معصوم ہونے کی کیا ضمانت ہے ؟ اس لیے کسی امام، عالم اور فقیہ کے متعلق یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے کہ اس کے قول میں خطاء نہیں ہوسکتی اور ایسا عقیدہ رکھنا شرک فی الرسالت کے مترادف ہے : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء کے سوا کوئی بشر معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بےجا صادر ہونا کچھ نادر کالمعدوم نہیں، پھر سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے کہ ہر شخص کا قول مقبول بھی ہوتا ہے اور مردود بھی ماسوا اس قبر والے کے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٦ ص ٢٨٣، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) ۔
اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی ١٢٣٩ ھ نے لکھا ہے کہ پیر کے نام کا بکرا حرام ہے خواہ بہ وقت ذبح تکبیر کہی جائے، اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت (رح) تعالیٰ لکھتے ہیں : اس مسئلہ میں حق یہ ہے کہ نیت ذابح کا اعتبار ہے، اگر اس نے اراقت دم تقربا الی اللہ کی (اللہ کے لیے جانور کا خون بہایا) اور وقت ذبح نام الٰہی لیا، جانور بنص قطعی قرآن عظیم حلال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مالکم ان لا تاکلوا مما ذکراسم اللہ علیہ۔ (الانعام : ١١٩) تمہیں کیا ہوا کہ تم اس کو نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ تفصیل فقیر کے رسالہ سبل الاصفیاء میں ہے، شاہ صاحب سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی اور وہ فقط فتاویٰ بلکہ تفسیر عزیزی میں بھی ہے اور نہ ایک ان کا فتاویٰ بلکہ کسی بشر غیر معصوم کی کوئی کتاب ایسی نہیں، جس میں سے کچھ متروک نہ ہو۔ سیدنا امام مالک (رض) فرماتے ہیں ہر شخص کا قول مقبول بھی ہے اور مردود بھی سوا اس قبر والے کے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٨ ص ٣٥٦، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 31
جزاکم اللہ خیرا کثیرا 🥰🥰🥰💐💐🌹🌹🌹🎉